عیب جوئی کے متعلق تعلیم
عیب جوئی بظاہر تنقید ہے، مگر حقیقت میں یہ انسان کے نفس کا ایسا فریب ہے جو اسے باطنی برتری کے احساس میں مبتلا کر دیتا ہے۔ یہ وہ نفسیاتی بیماری ہے جو انسان کو دوسروں کی خطاؤں کا جج بنا دیتی ہے، اور خود اپنے دل کے آئینہ کو گرد آلود کر دیتی ہے۔ جب انسان اپنے دل کو دوسروں کی خامیوں، کمزوریوں اور لغزشوں سے بھر لیتا ہے، تو اس کے قلب کا وہ لطیف مقام، جو الٰہی قرب، محبت اور سکینہ کے لیے مخصوص ہے، رفتہ رفتہ غفلت، کینہ، اور کج نظری کا شکار ہو جاتا ہے۔ دل کا وہ نور جو رب کی تجلیات کا عکس بن سکتا تھا، اب ایک اندھیری کوٹھری بن جاتا ہے جس میں صرف نفرت کی گونج باقی رہ جاتی ہے۔ اسی دل کی تاریکی جب زبان پر منتقل ہوتی ہے تو وہ زبان جو ذکرِ الٰہی کے لیے پیدا کی گئی تھی، شعلہ بن جاتی ہے۔ وہ زہر اُگلتی ہے، خیر نہیں بانٹتی۔ وہ الزام لگاتی ہے، دعا نہیں کرتی۔ ایسے میں کردار بھی آئینہ نہیں رہتا بلکہ ایک پرانا زنگ آلود شیشہ بن جاتا ہے جس میں نہ خود کی تصویر دکھائی دیتی ہے نہ دوسروں کے لیے کوئی راستہ۔
عیب جوئی سے باز رہو
سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے ارشاد فرمایا:
تم ایک دوسرے کی عیب جوئی سے باز رہو، کیونکہ جو شخص دوسروں کی خطاؤں کو تلاش کرتا ہے، وہ دراصل اپنے نفس کی خامیوں کو چھپانا چاہتا ہے۔ تم اپنے بھائی کی لغزشوں پر پردہ ڈالو تاکہ رب کریم تمہارے گناہوں کو بھی اپنی ذاتِ مبارکہ سے ڈھانپ دے۔ جیسا سلوک تم بندوں کے ساتھ کرو گے، ویسا ہی تمہارے ساتھ آسمانی ترازو میں کیا جائے گا۔ جس پیمانے سے تم دوسروں کو تولتے ہو، اسی سے تمہارا بھی وزن کیا جائے گا۔
تمہیں کیوں اپنے بھائی کی آنکھ میں ایک معمولی ذرہ نظر آتا ہے مگر اپنی آنکھ میں پڑے شہتیر کو تم محسوس نہیں کرتے؟ کس منہ سے تم اسے یہ کہنے کی جسارت کرتے ہو کہ آؤ میں تمھاری آنکھ سے یہ تنکا نکال دوں، حالانکہ تمہاری اپنی نگاہ حق سے محروم ہے؟ اے خود فریبی میں مبتلا انسان، پہلے اپنی نگاہ کی دھند صاف کر، دل کی بینائی کو پاکیزہ بنا، پھر ہی تو کسی دوسرے کی رہنمائی کے قابل ہو سکتا ہے۔
سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے یہ بھی فرمایا کہ الٰہی تعلیمات کو ان لوگوں کے سامنے مت پیش کرو جو ان کی قدر و منزلت سے نا آشنا ہوں۔ جیسے کوئی دانا انسان قربانی کا گوشت کتوں کے سامنے نہیں پھینکتا کہ کہیں وہ پلٹ کر حملہ نہ کر دیں، یا جیسے کوئی سونا اور جواہر خنزیروں کے سامنے نہیں ڈالتا کہ وہ انہیں پاؤں تلے روند نہ ڈالیں۔ اسی طرح تم بھی رب تعالیٰ کی حکمت اور نور کو ایسے دلوں کے سامنے ظاہر نہ کرو جو اس روشنی کے لائق نہیں، کہ کہیں وہ اس کی توہین نہ کریں اور تم اس گناہ میں شریک نہ ہو جاؤ۔
ناصر خسرو
دلِ آدمی آئنۂ رازِ حق است
چو گرد آن نشیند، ز فیضش شق است
ترجمہ
آدمی کا دل ربّانی رازوں کا آئینہ ہے
جب اس پر گرد بیٹھ جائے تو فیض منقطع ہو جاتا ہے
تشریح
ناصر خسرو نے دل کی مثال ایک شفاف آئینے سے دی ہے۔ یہ آئینہ تبھی ربّ العزت کے راز دکھاتا ہے جب اس پر دنیا کی غفلت، تکبر، اور عیب جوئی کی گرد نہ ہو۔ یہی حقیقت سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی تعلیم سے بھی واضح ہوتی ہے۔ جو شخص اپنی اصلاح کے بغیر دوسروں کی غلطیاں تلاش کرتا ہے وہ اندھیروں میں چراغ لے کر اپنے سائے کو ڈھونڈتا ہے۔ وہ خود روشنی سے محروم رہتا ہے اور دوسروں کے راستے کو بھی اجالا نہیں دے سکتا۔ اسی طرح جب رب تعالیٰ کی نعمتوں کو ان کے سامنے رکھا جائے جو انہیں بےقدر جانتے ہیں، تو وہ نعمتیں ان کے لئے زحمت بن جاتی ہیں۔ پس تعلیمِ الٰہی کو سنبھال کر اہلِ دل تک پہنچایا جائے، تاکہ وہ فیض سے سرشار ہوں۔
نتائج
- عیب جوئی دل کی بیماری ہے اور روحانی ترقی میں رکاوٹ ہے۔
- باطنی پاکیزگی کو ظاہری تقویٰ سے مقدم جانا گیا ہے۔
- خود احتسابی وہ پہلا زینہ ہے جس پر کھڑے ہو کر اصلاحِ خلق کی بات کی جا سکتی ہے۔
- مقدس تعلیمات کو اُن کے سپرد کیا جائے جو اُن کے اہل ہوں، ورنہ وہ نادانی کا شکار ہو کر ہلاکت کا سبب بن سکتی ہیں۔
اختتامیہ
سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی یہ نصیحت نہ صرف باطنی صفائی کی دعوت دیتی ہے بلکہ اللہ رب العزت کی ستار ذات کی صفت کو اپنی زندگی میں اپنانے کا سبق بھی دیتی ہے۔ جو شخص اپنے اندر کی تاریکی کو روشن کرنے میں کامیاب ہو جائے، وہی دوسروں کی راہوں میں چراغ رکھ سکتا ہے۔ ربّ کریم ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی نگاہ کو آئینہ بنائیں نہ کہ خنجر، اور اپنی زبان کو دعا کا وسیلہ بنائیں نہ کہ الزام کا ہتھیار۔ دل اگر ستار صفات سے آراستہ ہو جائے تو دنیا میں رحمت کا سایہ اور آخرت میں نور کا سہارا بن جاتا ہے۔