ربُّ العرش کی رِضا کے متعلق تعلیم

روحانی تاریخ کا مشاہدہ ہے کہ زبان کی نرمی اکثر دل کی حقیقت کو نہیں ظاہر کرتی۔ انسان کے ہونٹ مولا مولا پکارتے ہیں مگر دل اپنی خواہشات کا غلام بنا رہتا ہے۔ ہر دور میں وہ لوگ نظر آتے ہیں جو ظاہری نام و نعرے تو بلند کرتے ہیں، لیکن باطن میں اُن کا سفر ربُّ العرش کی رضا کی طرف نہیں بلکہ اپنی انا اور اپنی چاہتوں کی طرف ہوتا ہے۔ ایسے لوگ دین کے نام پر شہرت کے قافلے کھڑے کرتے ہیں مگر ان کے اعمال میں وہ سادگی، وہ فرمانبرداری، اور وہ سچائی نظر نہیں آتی جو ایک سچے طالبِ حق کے اندر روشن ہوتی ہے۔
سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے اس دھوکے کو بے نقاب کرتے ہوئے ایک ایسی تعلیم عطا فرمائی جو ہر طالب کو اپنے باطن کا جائزہ لینے پر مجبور کر دیتی ہے۔ یہ وہ تعلیم ہے جو ظاہری دعووں اور حقیقی فرمانبرداری کے درمیان حدِ فاصل قائم کرتی ہے۔
سچائی کا آئینہ
سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا: مجھے صرف مولا! مولا!‘ کہہ کر پکارنے سے کوئی بھی جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ صرف وہی لوگ جائیں گے جنت میں جو میرے پروردگار ربُّ العرش کی رِضا کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔ روزِ محشر بہت سے لوگ مجھ سے کہیں گے مولا! مولا! ہم آپ کا نام لے کر الہامی باتیں کرتے رہے آپؑ کے اِسمِ اعظم کی برکت سے جنات نکالتے اور بے بہا کرامات دکھاتے رہے۔ اُس وقت مَیں اُن سے کہہ دوں گا: میری تمھاری تو کبھی جان پہچان ہی نہیں رہی۔ دفع ہو جاؤ یہاں سےنافرمانو کیونکہ تم اپنی خواہشات پر مبنی زندگی بسر کرتے تھے ناکہ خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق بسر کرتے تھے۔
یہ کلام اُس سچائی کو بے نقاب کرتا ہے جو زبانوں اور چہروں سے کہیں آگے دل کے اندر چھپی نیت تک پہنچتی ہے۔

حافظ شیرازیؒ فرماتے ہیں ہیں:
گر در عمل نباشد اخلاصِ دل رفیق
صد بار مولا گفتن سودے نگیردت
ترجمہ:
اگر عمل میں دل کا اخلاص نہ ہو تو سینکڑوں بار مولا کہنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔
تشریح
حافظِ شیرازؒ ایک ایسی حقیقت کھولتے ہیں جو سیدنا عیسیٰؑ کی تعلیم سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ زبان اگر مولا کی صداؤں سے بھری ہو مگر دل میں فرمانبرداری کا چراغ نہ جلے تو یہ نعرے محض ہوا بن جاتے ہیں۔
سچائی یہ ہے کہ ربُّ العرش کی رضا صرف الفاظ سے نہیں، بلکہ ایسے کردار سے ظاہر ہوتی ہے جو اپنے میلانات سے ٹکرا کر خدا کی رضا کی طرف جھکتا ہے۔
جو انسان اپنی خواہشات کا اسیر ہو، وہ چاہے کرامات کے منبر پر کھڑا ہو، یا روحانی حوالوں کے شور میں لپٹا ہو، اس کا باطن اس حقیقت کو ظاہر کر دے گا کہ وہ خدا کی رضا کے راستے پر نہیں بلکہ اپنی طلب کے راستے پر چل رہا ہے۔
سیدنا عیسیٰؑ کے فرامین یہ بتاتے ہیں کہ نجات کا معیار شورِ زبان نہیں، بلکہ سکوتِ عمل میں چھپی فرمانبرداری ہے۔
یہ تعلیم ہمیں جھنجھوڑ کر کہتی ہے کہ خدا کی رضا وہ دروازہ نہیں جو آواز سے کھلے، بلکہ وہ مقام ہے جس تک کردار اور فرمانبرداری کی چابی پہنچاتی ہے۔
نتائج
روزِ محشر وہ دل رد کر دیا جائے گا جس کا سفر خدا کی طرف نہیں بلکہ اپنی خواہشات کی طرف تھا۔
ربُّ العرش کی رضا صرف وہی دل حاصل کرتے ہیں جو فرمانبرداری پر قائم رہتے ہیں۔
انسان جنات نکال لے یا الہامی دعوے کر لے اگر اس کا باطن خدا کی رضا کے تابع نہیں تو یہ سب بے وزن ہو جاتا ہے۔
سیدنا عیسیٰؑ نے ہمیں بتایا کہ خدا کی رضا کے بغیر کوئی دعویٰ جنت تک نہیں پہنچا سکتا۔

اختتامیہ
سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی یہ تعلیم ایک سادہ نصیحت نہیں بلکہ ایک ایسی روحانی کسوٹی ہے جو ہر طالب کو خود اپنا محاسبہ کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ پیغام بتاتا ہے کہ خدا کی رضا ان لوگوں کے لیے ہے جو بندگی کو زبان نہیں زندگی کا مرکز بناتے ہیں۔وہ دل جو اپنی خواہشات کی دھول جھاڑ کر ربُّ العرش کی رضا کی طرف جھک جائے وہی دل پہچانا جاتا ہے۔ ایسا دل وہ درخت ہے جس کے سائے میں تھکے ہوئے لوگ سکون پاتے ہیں اور جس کے پھل سے بھٹکے ہوئے دل راستہ تلاش کر لیتے ہیں۔ جو دل خدا کی رضا پر چلتا ہے وہی دل آخرکار قبول کی خوشبو لیے رب کی حضوری میں اٹھایا جائے گا۔