ایمان، عمل اور فرمانبرداری

روحانی زندگی میں سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ سننا آسان ہے لیکن سن کر چلنا مشکل ہے۔ انسان بہت سی باتیں سنتا ہے نصیحتیں بھی اس کے کانوں تک پہنچتی ہیں مگر اصل طاقت اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب دل یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ سن کر بدل بھی جائے۔ وہ دل جو صرف سنتا ہے وہ ہوا کے جھونکے سے لرز جاتا ہے، اور وہ دل جو سنتا ہے اور
پھر عمل کے راستے پر قدم بڑھاتا ہے وہ پہاڑ جیسی مضبوطی پاتا ہے۔
سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے اس حقیقت کو ایک مثال کے ذریعے سمجھایا۔ ایسی مثال جو صرف ذہن کو نہیں بلکہ دل کے اندر چھپی بنیادوں کو بھی آشکار کرتی ہے۔

سچائی کا آئینہ
سیدنا حضرت عیسیٰ ؑ نے فرمایا کہ جو شخص میرے فرمان کو سنتا بھی ہے اور اسے اپنی زندگی میں اختیار بھی کرتا ہے، وہ اس عقلمند انسان کی طرح ہے جس نے اپنا گھر پتھریلی چٹان پر کھڑا کیا۔ بارشیں برسیں، طوفان آئیں، آندھیاں چلیں، پانی گھر کی دیواروں سے ٹکراتا رہے مگر وہ گھر اپنی جگہ قائم رہتا ہے کیونکہ اس کی جڑیں مضبوط تھیں اور بنیادیں گہری تھیں۔
پھر آپؑ نے فرمایا کہ جو شخص میرا کلام سنتا تو ہے لیکن اسے اپنے عمل کا حصہ نہیں بناتا، وہ اس بےوقوف انسان کی مانند ہے جس نے اپنا گھر نرم ریت پر بنایا۔ پہلی ہی بارش آئی تو ریت بہہ گئی، بنیادیں کھسک گئیں اور سارا گھر مٹ گیا۔
جب آپؑ نے یہ تعلیم ختم کی تو سننے والے حیران رہ گئے کیونکہ آپؑ نے یہ کلام روایتوں کا حوالہ دے کر نہیں بلکہ اپنے اختیار اور اپنی سچائی سے پیش کیا تھا۔ یہ انداز ان کے لئے نیا بھی تھا اور دلوں کو جھنجھوڑ دینے والا بھی۔

حافظ شیرازی فرماتے ہیں
بنیاد اگر ز خاک بود، ریختہ شود
باقی فقط بنای دل است کز وفا بود

ترجمہ
اگر بنیاد مٹی یا ریت پر ہو تو وہ لازمی ڈھے گی
پائیدار تو وہی دل ہے جو وفا اور سچائی پر قائم ہو۔

تشریح
یہ شعر سیدنا عیسیٰ ؑکی تعلیم کی اصل روح کو کھول کر سامنے رکھ دیتا ہے۔ ریت پر بنائی گئی بنیاد خواہ کتنی ہی خوبصورت عمارت کو کیوں نہ اٹھائے، اس کے اندر ایک بےچینی ضرور رہتی ہے کیونکہ ریت دباؤ برداشت نہیں کر سکتی۔ اسی طرح وہ انسان جو کلام سنتا ہے مگر اس پر عمل نہیں کرتا، اس کا باطن بھی ویسا ہی ہوتا ہے۔ کوئی بھی آزمائش اسے گرا دیتی ہے۔ چٹان وہ دل ہے جو وفاداری، سچائی اور خدا کی خوشنودی کے راستے پر قائم ہو۔ ایسا دل صرف سنتا نہیں بلکہ کلام کو اپنے اندر اتار کر اپنی زندگی کا رخ بدل دیتا ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جسے کوئی طوفان شکست نہیں دے سکتا۔

نتائج
جو انسان کلام سنتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے وہی حقیقت میں مضبوط بنیاد رکھتا ہے۔
زندگی کی آزمائشیں یہ دکھا دیتی ہیں کہ کس کا گھر چٹان پر ہے اور کس کا ریت پر ہے
فرمانبرداری وہ قوت ہے جو دل کو مضبوط بناتی ہے اور انسان کو گرنے سے بچاتی ہے۔
سیدنا عیسیٰ ؑ کا اختیار ان کے کلام میں جھلکتا ہے اور یہ اختیار انسان کے دل تک راستہ بناتا ہے۔

اختتامیہ
سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی یہ تعلیم ایک آئینہ ہے جو ہر انسان کے سامنے دو تصویریں رکھ دیتی ہے۔ ایک وہ گھر جو مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہے اور دوسرا وہ گھر جو ریت پر ٹکا ہوا ہے۔ فیصلہ ہر انسان کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اپنی زندگی کی بنیاد کس زمین پر رکھے گا۔
جو دل فرمانبرداری کے راستے پر قدم رکھتا ہے وہ خود چٹان جیسی مضبوطی پا لیتا ہے۔ ایسا دل نہ طوفان سے گرتا ہے، نہ بارشوں سے بہتا ہے، نہ آندھی اسے ڈگمگا سکتی ہے۔
آخرکار وہی دل خدا کی حضوری میں قائم پایا جاتا ہے جو وفاداری، سچائی اور اطاعت کی بنیاد پر کھڑا ہو۔