تورات شریف کا وقار اور شریعت کی تکمیل
جب زمین پیاس کی شدت سے کراہنے لگتی ہے اور اُس کے ذرات سوزِ طلب میں لرزتے ہیں، تو آسمان اُس کے لیے اپنے فضل و رحمت کے بادل نازل کرتا ہے، اور ہر قطرہ اُس کی تشنگی کو قرار عطا کرتا ہے۔ ایسے ہی جب دلوں کی زمین نور سے خالی ہو کر خاموش و ویران ہو جائے اور باطن غفلت کے بوجھ تلے دب جائے، تو ربُّ العرش اپنی شریعت کا نور نازل فرماتا ہے، جو دل کی تاریکیوں کو چیرتا ہے اور روح کو بیداری کی جانب لے جاتا ہے۔ شریعت صرف احکام کا مجموعہ نہیں بلکہ رحمتِ ربانی ہے، جو انسان کو بھٹکی راہوں سے نکال کر صراطِ مستقیم کی جانب رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ جب سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے درسِ ہدایت کا آغاز فرمایا، تو اُن کے الفاظ فقط سماعت کا حسن نہ تھے، بلکہ قلوب میں اُترنے والی ایسی صدائیں تھیں جنہوں نے روحوں کو بیدار کر دیا۔ جب نورِ ہدایت کے گوہر کوہِ مقدس پر بکھیرے گئے اور اہلِ دل نے خطبۂِ جبل کو دل سے سنا، تو ایسا لگا گویا آسمانی خوشبو سینوں میں اُتر رہی ہو۔ پھر سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا، ایسی تاکید جس نے سابقہ صحیفوں کی عظمت کو روشن کیا اور حق و باطل کی تمیز کو آشکار کر دیا، تاکہ ہر ہدایت طلب دل راہِ صداقت کو پا لے اور ازل کا نور ابد تک اُس کا رہنما بن جائے۔
شریعتِ موسوی اور انبیاءِ کرام کے صحائف
سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے ارشاد فرمایا:
خبردار، ہرگز یہ گمان مت کرو کہ میں شریعتِ موسوی یا ان انبیاءِ سابقین علیہم السلام کے صحائف کو باطل کرنے آیا ہوں۔ نہیں، ہرگز نہیں۔ میں تو اس لیے آیا ہوں کہ ان کا جوہر آشکار ہو، ان کے وعدے پایۂ تکمیل کو پہنچیں، اور وہ روحانی حقیقت جو ان کے اندر ودیعت ہے، واضح ہو جائے۔ میرا آنا ان شریعتوں کی نفی نہیں بلکہ ان کی تصدیق، تکمیل اور ان کے نور کا ظہور ہے، تاکہ کلامِ الٰہی کی صداقت ابد تک چمکتی رہے۔
سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے مزید ارشاد فرمایا:
سن لو، میں تم سے حق اور صداقت کا کلمہ کہتا ہوں۔ جیسے زمین و آسمان، اپنے ربّ کریم کی مشیّت کے بغیر اپنی جگہ سے ذرّہ برابر بھی جنبش نہیں کر سکتے، ویسے ہی اللہ تعالیٰ کے کلامِ مبارک کا ایک نقطہ، ایک حرف بھی کبھی باطل نہیں ہو سکتا۔ جب تک کہ ہر بات، ہر وعدہ، اور ہر ارادہ، جیسا کہ لوحِ ازل میں مقدر ہو چکا ہے، مکمل نہ ہو جائے، اُس کی کتابِ ہدایت سے کچھ بھی منسوخ نہیں ہو سکتا۔
“پس جس کسی نے اللہ تعالیٰ کے احکام میں سے کسی ادنیٰ حکم کو بھی معمولی جانا، یا دوسروں کو اس کی خلاف ورزی پر آمادہ کیا، وہ شخص سلطنتِ الٰہیہ میں ادنیٰ درجے پر شمار کیا جائے گا۔ اور جو بندۂ مخلص خود بھی اُن احکامِ ربانیہ پر دل و جان سے عمل پیرا ہو، اور دیگر خلائق کو بھی اسی راہِ اطاعت کی تلقین کرے، وہی عنداللہ بزرگی، عزت اور رفعت کا مستحق قرار پائے گا، اور اُسے سلطنتِ الٰہیہ میں بلند مقام عطا کیا جائے گا۔
“پس میں، عیسیٰ، تم سے صداقت کے ساتھ فرماتا ہوں کہ اگر تمہارا تقویٰ، تمہارا باطنی وقار، اور تمہاری فرمانبرداری، اطاعت اُن علماء و متکبر فقیہوں سے بڑھ کر نہ ہوگا، جنہوں نے شریعتِ الٰہی کے احکام کو محض رسوم و عادات کا جامہ پہنا دیا، اور جنہوں نے باطن کی روشنی کو ظاہری نمود و نمائش کے پردوں میں چھپا دیا، تو جان لو کہ تم سلطنتِ الٰہیہ میں ہرگز داخل نہ ہو سکو گے۔ کیونکہ سلطنتِ الٰہیہ اُن کے لئے ہے جو دل کی زمین پر اطاعت کا بیج بوتے ہیں، اور تقویٰ کی خوشبو سے اپنے باطن کو معطر رکھتے ہیں، نہ کہ اُن کے لئے جو کلامِ الٰہی کو محض زبان کی زینت بناتے ہیں مگر دل سے خالی ہوتے ہیں۔
مولانا جلال الدین رومیؒ
ہر کرا از حق رسد پیغامِ نور
بر نتابد سایۂ باطل صدور
ترجمہ:
جس کے دل میں حق کا پیغام اترتا ہے،
وہ باطل کے سائے کو کبھی قبول نہیں کرتا۔
تشریح:
یہ شعر سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی اُس تعلیم پر پوری طرح منطبق ہوتا ہے، جس میں یہ حقیقت آشکار کی گئی کہ جب کسی دل پر وحیِ الٰہی کا نور اترتا ہے، تو وہاں باطل کی ظلمت کو کوئی گزر نہیں، اور نہ ہی گمراہی کی سیاہی وہاں قیام پا سکتی ہے۔ سیدنا حضرت عیسیٰؑ کا پیغام ایسا نورِ ہدایت تھا، جس نے شریعت کے ظاہر کو باطن کی بصیرت سے مربوط کر دیا، اور عبادت کو معرفت کا رُخ عطا فرمایا۔ جنہوں نے محض رسم و رواج کی ظاہری چادر کو شریعت کا لباس سمجھا، اُن کے سامنے سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے ایک زندہ، حقیقی اور عمل پر مبنی دین کا تصور پیش فرمایا، جو محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ روح کی غذا، دل کا سکون اور راست روی کا عملی نمونہ ہے۔
نتائج:
- سابقہ آسمانی صحائف اور انبیاءِ کرام علیہم السلام کی تعلیمات کو عزت و عظمت کے ساتھ تسلیم کرنا ایمانِ کامل کی بنیاد اور اعتقادِ سلیم کی پہلی سیڑھی ہے۔
- کلامِ الٰہی کی تکمیل، کسی نسخ و تبدیلی سے نہیں بلکہ صداقت، وفاداری، اور بندگی پر مبنی عملی پیروی سے ہوتی ہے، کیونکہ وہ کلام ازل کا نور ہے جو ابد تک روشن ہے۔
- شریعتِ الٰہی کی اطاعت محض زبانی دعووں سے نہیں، بلکہ اخلاصِ نیت، عدلِ کردار، اور عملِ صالح سے ہی ممکن ہے، جو بندے کو ربّ کی رضا کی جانب لے جاتا ہے۔
- جو کوئی احکامِ ربانی کو ہلکا، معمولی یا غیر اہم جانے، وہ خود ربِ ذوالجلال کی سلطنتِ الٰہیہ میں کم درجے پر شمار کیا جائے گا، کیونکہ تقدیسِ شریعت ایمان کا جوہر ہے۔
- سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے فقط زبان سے تعلیم نہ دی، بلکہ اپنی زندگی کے ہر پہلو میں اُن تعلیمات کو مجسم کر کے ایک کامل اور عملی نمونۂ ہدایت پیش فرمایا، تاکہ مخلوق حق کی جانب خود اُس کے عمل سے رہنمائی پائے۔
اختتامیہ:
یہ کلامِ حق، سیدنا حضرت عیسیٰؑ کے قلبِ مطہر سے اٹھنے والی وہ الہامی صدا ہے، جو دلوں کو صداقت کی مہک، شریعت کی عظمت، اور تقویٰ کی راہ کی طرف بلاتی ہے۔ یہ صدا یاد دہانی ہے اُس ابدی حقیقت کی، کہ ربِّ جلیل کے احکام نہ کبھی پُرانے ہوتے ہیں، نہ اُن کے نور میں کمی آتی ہے، کیونکہ وہ کلامِ ازل ہے، جو ہر دور میں تازہ تر محسوس ہوتا ہے۔ سچائی، وہ لباسِ جمال ہے جو ہر زمانے میں نو بہ نو دکھائی دیتا ہے، اور شریعت، وہ نورانی چراغ ہے جو ہر اندھیرے میں رہنمائی کا سامان بنتا ہے۔ جو کوئی اس نور میں جیتا ہے، وہ نہ صرف اپنی راہ روشن رکھتا ہے بلکہ دوسروں کے لئے بھی مینارِ ہدایت، مشعلِ صداقت، اور چراغِ تقویٰ بن جاتا ہیں۔ یہی وہ پیغام ہے جو نہ صرف زبان سے ادا ہوا بلکہ عمل سے ثابت ہوا، اور جس نے ہر حق طلب دل کو صداقت کی راہ دکھائی۔