صلح صفائی کے متعلق تعلیم

جب انسانی دل میں نفرت کے شعلے بھڑکنے لگتے ہیں، تو وہ نہ صرف باطن کو جھلساتے ہیں بلکہ ظاہری رشتوں کو بھی خاکستر کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شریعتِ الٰہی صرف عبادت کا درس نہیں دیتی، بلکہ محبت، معافی اور مصالحت کی تعلیم بھی دیتی ہے۔ سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے اپنے زمانے میں جب قوم کو تکبر اور انتقام کی راہوں پر چلتا دیکھا، تو وہ دل کی صفائی اور باہمی صلح کو عبادت سے بھی مقدم قرار دینے لگے۔ کیونکہ قربانی اُس وقت قبول ہوتی ہے، جب دل نفرت سے پاک ہو اور زبان دوسروں کی عزت کے لیے جاری ہو۔

صلح صفائی کا وقار

سیدنا حضرت عیسیٰؑ، نورِ ربانی کے حامل، اور رحمت کے ترجمان نے اہلِ انسانیت کو خطاب فرمایا:
اے اولادِ آدم، تم اپنے عبادت خانوں میں بارہا شریعتِ موسوی کی وہ صدائے ہدایت سنتے رہے ہو، جو یوں نازل ہوئی: “قتل نہ کرنا، اور جو کسی بے گناہ کا خون بہائے، اُسے عدل کے دربار میں حساب دینا ہوگا۔” مگر سنو، میں، عیسیٰ، تم سے وہ بات کہتا ہوں جو فقط قانون کی ظاہری حد نہیں، بلکہ دل کی عدالت میں نور کی شہادت ہے۔ جو کوئی اپنے بھائی کے خلاف بے جا غصے کا دروازہ کھولے، وہ ربُّ العرش کی عدالتِ عدل میں مجرم تصور کیا جائے گا۔ اور جو زبان کی تلخی سے کسی کے وقار کو روند ڈالے، وہ بارگاہِ شریعت میں مؤاخذے کا سزاوار ہو گا۔ اور جو کسی کو “مرتد” قرار دے کر اُسے قتل کا اہل جانے، وہ جان لے کہ اُس نے اپنی روح کو نارِ جہنم کے حوالے کر دیا ہے۔

“پس اگر تم اپنے ربّ کریم کی بارگاہ میں قربانی پیش کرنے کے ارادے سے حاضر ہو رہے ہو، اور اسی لمحے تمہارے دل میں یہ خیال جاگزیں ہو کہ تمہارے کسی بھائی کے دل میں تمہارے بارے میں رنج و ملال ہے، تو فوراً اُس قربانی کو موقوف کر دو، اور سب سے پہلے اُس بھائی سے صلح و صفائی کر لو، جس کے دل میں تمہارے لئے کدورت ہے۔ پھر جب تم مصالحت و محبت کے چراغ دل میں روشن کر چکو، تب رجوع کرو اپنے ربّ کی حضوری کی طرف۔ تبھی تمہاری قربانی بھی مقبول ہوگی، اور تم پر رحمتِ الٰہی کا سایہ اپنی لطافت کے ساتھ چھا جائے گا، کیونکہ ربّ العزت وہی قربانی قبول کرتا ہے جو دل کی طہارت اور باہمی محبت سے معطر ہو۔

“اور اگر کوئی شخص تم پر دعویٰ لے کر عدل و انصاف کے دربار کی طرف پیش قدمی کر رہا ہو، تو بہتر یہی ہے کہ راستے ہی میں اُس سے صلح و رضامندی کا معاملہ طے کر لو، اس سے قبل کہ وہ تمہیں قاضیِ وقت کے سامنے پیش کرے، اور قاضی تمہارے خلاف فیصلہ صادر فرما کر تمہیں داروغے کے حوالہ کر دے، اور داروغہ تمہیں قید و بند کے حوالے کر دے۔ اور خوب جان لو کہ جب تک تم اپنے ذمے عائد کردہ حق کا پورا پورا بدلہ، ذرہ برابر بھی باقی رکھے بغیر، ادا نہ کر دو، اُس قید سے رہائی کی کوئی سبیل نہ ہوگی۔

“پس، رجوع الیٰ اللہ اختیار کرو جب تک درِ توبہ کھلا ہے اور مہلتِ اصلاح باقی ہے، اور اپنے دلوں کو معافی کی لطافت سے منور کرو، کیونکہ درگزر اور صلح کی روش وہ پہلا زینہ ہے جس سے بندہ بارگاہِ ربّ جلیل کے قرب کی سیڑھی پر قدم رکھتا ہے۔ دلوں کی کدورت دور کرو، تاکہ تمہاری روحیں نورِ وصال کی طرف پرواز کر سکیں، اور تمہاری توبہ رحمتِ الٰہی کے سایہ میں قبولیت کی سند پائے۔


حضرت سعدیؒ شیرازی
چو عضوی به درد آورد روزگار
دگر عضوہا را نماند قرار

ترجمہ:
جب زمانہ کسی ایک عضو کو درد دیتا ہے،
تو دوسرے اعضا کو بھی چین و سکون نہیں رہتا۔

تشریح:
یہ شعر درحقیقت سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمِ صلح، ہمدردی، اور اخوت کا ایک لطیف پرتَو ہے۔ جب کوئی انسان اپنے کسی بھائی کو اذیت دیتا ہے، اُس کے دل کو مجروح کرتا ہے، یا اُس کی حرمت کو زخم پہنچاتا ہے، تو دراصل وہ صرف دوسرے کو نہیں بلکہ اپنے ہی باطن کو جلا دیتا ہے، اور اپنے وجود کے سکون کو خود اپنی ہی ہاتھوں سے غارت کرتا ہے۔ نوعِ انسان ایک جسدِ واحد کی مانند ہے؛ اگر اُس جسم کے ایک عضو کو زخم لگے، تو پورا وجود بے چین ہو جاتا ہے۔ سیدنا حضرت عیسیٰؑ اسی نورانی شعور کی طرف بلاتے ہیں، جہاں باہمی ہمدردی، دل کی صفائی، اور عدلِ باطن، عبادت و قربانی سے مقدم قرار پاتی ہے۔


نتائج:

  1. قربانی اور عبادت اُس وقت بارگاہِ ربِّ کریم میں مقبول ہوتی ہے جب دل معافی، محبت، اور باہمی صلح کی روشنی سے منور ہو، اور باطن عناد و کدورت سے پاک ہو جائے۔
  2. ناحق غضب، دل آزاری اور زبان کی سختی بھی ربِ جلیل کی روحانی عدالت میں سنگین جرم شمار ہوتے ہیں، جو بندے کو مواخذہ اور سزا کا مستحق بنا سکتے ہیں۔
  3. باہمی رنجش، دل کی دوری، اور تعلقات کی شکستگی کو دور کرنا محض اخلاقی عمل نہیں بلکہ شرعی و روحانی فریضہ ہے، جو عبادت سے بھی مقدم ہے، کیونکہ ربّ تعالیٰ ظاہر سے پہلے باطن کو دیکھتے ہیں۔
  4. جو کوئی کسی کو گمراہ، مرتد یا واجبُ القتل قرار دے کر نفرت اور فساد پھیلائے، وہ درحقیقت خود اپنے آپ کو نارِ جہنم کے قریب تر کر لیتا ہے، اور اُس کا یہ عمل اُسے عدلِ الٰہی کے شکنجے میں لے آتا ہے۔
  5. جب انسان پر مقدمہ یا نزاع لاحق ہو، تو حتمی فیصلے سے قبل باہمی صلح اختیار کر لینا دنیاوی فلاح اور اخروی نجات کا راستہ ہے، جو شریعتِ الٰہی کی حکمت سے مطابقت رکھتا ہے۔

اختتامیہ:
سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی یہ نورانی تعلیم انسان کو محض ظاہری عبادت کی طرف نہیں، بلکہ دل کی تطہیر، باطن کی اصلاح، اور تعلقات کی درستی کی طرف بلاتی ہے۔ حضرت عیسیٰؑ نے نہایت وضاحت کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ بندے کا اصل امتحان محض سجدوں اور قربانیوں میں نہیں، بلکہ اُس کی زبان کی لطافت، دل کی وسعت، اور خلقِ خدا کے ساتھ اُس کے برتاؤ میں پوشیدہ ہے۔ صلح وہ دروازہ ہے جو بندے کو ربّ کی رحمت و قربت کی طرف لے جاتا ہے، اور بھائی کے ساتھ محبت، نرم گفتاری اور معافی، اُس دروازے کی مقدس کنجی ہے۔ پس جو کوئی چاہتا ہے کہ اُس کی عبادات مقبول ہوں، اُس کی قربانیاں عرشِ الٰہی تک پہنچیں، اور اُس کا نام بندگانِ مقربین میں لکھا جائے، اُسے چاہیے کہ سب سے پہلے دل کی دیواروں کو مسمار کرے، نفرت و عداوت کے پردے ہٹا دے، اور صلح و درگزر کی روشنی سے اپنے باطن کو روشن کر لے۔ کیونکہ وہی دل اللہ تعالیٰ کے قرب کے لائق ہے، جو اپنے بھائی کو معاف کر کے ربّ کی رضا کو پا لے۔