زنا اور گمراہی کے متعلق تعلیم
شریعتِ الٰہی کا اصل مقصد انسان کے ظاہر کے ساتھ باطن کو بھی پاکیزگی عطا کرنا ہے۔ جہاں شریعت زنا جیسے سنگین گناہ سے روکتی ہے، وہیں روحانی شریعت نظر کی آلودگی، دل کی ناپاکی اور ارادے کی گمراہی کو بھی گناہ کے زمرے میں لاتی ہے۔ سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے دین کو صرف ظاہری قوانین کا مجموعہ نہیں مانا بلکہ دل کی نیت، نگاہ کی سمت اور جسم کے ہر عضو کی وفاداری کو طہارت کا پیمانہ بنایا۔ اُن کی تعلیم ہمیں اس گہرائی میں لے جاتی ہے جہاں دل میں پیدا ہونے والا فتنہ بھی عدلِ الٰہی کی گرفت میں آتا ہے۔
نظر کی پاکیزگی اور طہارتِ باطن کی تعلیم
سیدنا حضرت عیسیٰؑ رحمت کے ترجمان نے اہلِ انسانیت کو خطاب فرمایا:
اے اولادِ آدم، تم اپنے عبادت خانوں میں بارہا یہ ربانی حکم سنتے آئے ہو کہ تمہارے بڑوں کو فرمایا گیا: “زنا نہ کرنا”۔ مگر میں، عیسیٰ ابنِ مریمؑ، تم سے صداقت اور ربانی حکمت کے ساتھ کہتا ہوں کہ جو شخص کسی عورت کو بری نیت اور شہوت بھری نظر سے دیکھے، اور اپنی نگاہ کو نفسانی خواہشات کا تابع بنا لے، تو وہ اپنے دل میں اُس عورت کے ساتھ زنا کر چکا سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ گناہ صرف عمل کا نام نہیں، بلکہ نیت، نظر، اور دل کی خواہش بھی گناہ کا دروازہ ہوتی ہے۔ شریعتِ الٰہی ہمیں صرف ہاتھوں اور قدموں کے گناہ سے نہیں روکتی، بلکہ دل کی نیت، آنکھ کی بے راہ روی، اور اندرونی گمراہی سے بھی بچنے کا حکم دیتی ہے۔ یاد رکھو! ربّ العالمین کی عدالت میں صرف ظاہر نہیں، بلکہ دل کے ارادے، آنکھ کی نیت، اور باطن کا حال بھی تولا جاتا ہے، اور ہر وہ چیز جو انسان کے دل میں چھپی ہوتی ہے، وہاں کھول دی جاتی ہے۔
اور میں، عیسیٰؑ، تم سے مزید یہ بھی فرماتا ہوں: اگر تمہاری دائیں آنکھ تمہیں فتنۂ نظر کی طرف لے جائے، اور گمراہی و معصیت کا دروازہ بن جائے، تو اُسے نکال کر اپنے وجود سے الگ کر دو۔
بے شک، بہتر یہی ہے کہ تم ایک آنکھ سے محروم ہو جاؤ، مگر اپنے پورے جسم کو نارِ جہنم کی لپیٹ میں نہ ڈالو۔
اسی طرح اگر تمہارا دایاں ہاتھ تمہیں نافرمانی کی طرف مائل کرے، اور فسق و فجور کا وسیلہ بنے، تو اُسے کاٹ کر اپنے جسم سے جدا کر دو۔ یقیناً، تمہارا ایک ہاتھ ضائع ہو جانا اُس سے کہیں بہتر ہے کہ تمہارا سارا وجود قہرِ جہنم میں جھونک دیا جائے۔
یہی وہ صراطِ مستقیم ہے جو بندے کو باطن کی پاکیزگی، نفس کی حفاظت، اور دل کی روشنی کی طرف رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
حضرت بوعلی قلندرؒ
نظر از دل رود، دل از جان رود
ز نظر پاک شو، تا کہ جانت بود
ترجمہ:
جب نظر آلودہ ہو، تو دل بھی گناہ میں ڈوبتا ہے،
اگر تُو چاہتا ہے کہ تیری جان سلامت رہے،
تو اپنی نظر کو پاک کر لے۔
تشریح:
یہ شعر درحقیقت اُس نورانی تعلیم کا عکس ہے جو سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے اہلِ دل کو عطا فرمائی، جس میں دل، نگاہ، اور نیت کو گناہ کی جڑ قرار دیا گیا۔ گناہ کوئی محض جسمانی فعل نہیں، بلکہ وہ ایک باطنی بیج ہے جو دل کی زمین میں بویا جاتا ہے، اور آنکھ اُس زمین کی پہلی زرخیزی ہے۔ اگر آنکھ کو پاکیزگی سے نہ روکا جائے، تو دل میں شرارت کا شجر اگ آتا ہے، جو رفتہ رفتہ عملِ بد کے پھل دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ نے بد نگاہی کو بھی زنا کے مترادف قرار دیا، تاکہ انسان اپنی روح کی طہارت کو صرف جسم کی پاکی تک محدود نہ سمجھے، بلکہ دل کی صفائی کو بھی عبادت کا جزو سمجھے۔
نتائج
- شریعتِ الٰہی کا دائرہ صرف ظاہری افعال تک محدود نہیں، بلکہ وہ دل کے ارادوں، نگاہ کے رجحانات، نیت کی پاکیزگی، اور خیال کی طہارت پر بھی کامل گرفت رکھتی ہے۔
- بدنگاہی دراصل اُس راہ کی پہلی سیڑھی ہے جو زنا کی وادی میں لے جاتی ہے، اور دل کی آلودگی بھی ربّ کی عدالت میں گناہ ہی شمار ہوتی ہے، خواہ وہ زبان یا ہاتھ تک نہ پہنچی ہو۔
- جو شخص اپنے نفس کی لگام ڈھیلی چھوڑ دے، نگاہ کی حفاظت نہ کرے، اور اعضا کو حدود سے باہر استعمال کرے، تو وہ اگرچہ عبادت گزار ہو، مگر جہنم کی دہلیز کے قریب جا پہنچتا ہے۔
- سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے واضح فرمایا کہ باطن کی طہارت، اعضا کی قربانی سے زیادہ اہم ہے؛ یہاں تک کہ اگر آنکھ یا ہاتھ گمراہی کا ذریعہ بن جائے، تو اُسے ترک کر دینا نجات کی شرط بن جاتا ہے۔
- حقیقی تقویٰ اُس دل میں جنم لیتا ہے جو اپنے خیالات کا نگہبان، نگاہ کا محافظ، اور خواہشات کا غالب ہو جائے۔ یہی وہ روحانی بلندی ہے جو بندے کو ربّ کے قرب کی طرف لے جاتی ہے۔
اختتامیہ:
سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی یہ نورانی تعلیم ہمیں ظاہر کی بجائے باطن کی پاکیزگی کی طرف بلاتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ گناہ صرف عمل کا نہیں، بلکہ نیت، نظر اور دل کی آلودگی بھی ربِ جلیل کی عدالت میں جوابدہ ہے۔ نگاہِ بد، دل کی گمراہی اور نفس کی بے راہ روی، سب روح کو زخمی کرتی ہیں۔ اسی لئے حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا کہ اگر آنکھ یا ہاتھ گمراہی کا سبب بنے، تو اُسے چھوڑ دینا بندگی کی علامت ہے۔ یہ تعلیم ہمیں یاد دلاتی ہے کہ نجات کی راہ دل کی طہارت، نگاہ کی حفاظت اور نفس کی اطاعت سے ہو کر گزرتی ہے۔ جو بندہ اپنی نگاہوں کو حیا سے مزین کرے، دل کو صاف رکھے، اور ارادوں کو رب تعالیٰ کے حکم کے تابع کرے، وہی ربِ کریم کی رضا کا مستحق اور جنت کی روشنیوں کا وارث بنتا ہے۔