طلاق کے متعلق تعلیم
جب رشتوں کی بنیاد صرف دنیاوی فائدے، ظاہری آرام یا وقتی جذبات پر رکھی جائے، تو ان کا انجام اکثر ٹوٹ پھوٹ اور بربادی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ نکاح کا بندھن وہ مقدس پیمان ہے جو دو افراد کو صرف جسمانی یا قانونی طور پر نہیں بلکہ روحانی، اخلاقی اور باطنی طور پر جوڑتا ہے۔ جب اس پیمان کو طلاق کی شکل میں توڑا جاتا ہے، تو صرف دو انسان جدا نہیں ہوتے، بلکہ وفا، اعتماد، اور سکون کی ایک دنیا بکھر جاتی ہے۔ طلاق کوئی ہنسی کھیل نہیں، نہ ہی محض ایک قانونی دستاویز؛ بلکہ یہ وہ عمل ہے جو دلوں کی ویرانی، بچوں کی محرومی، اور خاندانوں کی بنیادوں کو ہلا دینے والا زلزلہ بن سکتا ہے۔ اگر کسی رشتے میں صبر، معافی اور اخلاص کا دامن چھوڑ دیا جائے، تو طلاق ایک آسان راستہ ضرور بن سکتی ہے، مگر اس کے بعد کی تنہائی، ندامت اور پشیمانی کا بوجھ اکثر ساری عمر اٹھانا پڑتا ہے۔ طلاق صرف ایک عورت یا مرد کی علیحدگی نہیں، بلکہ ایک پوری نسل کی جذباتی شکست اور معاشرتی زخم ہے جسے الفاظ میں نہیں ماپا جا سکتا۔
طلاق اور وفاداری کا روحانی معیار
سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے لوگوں سے ارشاد فرمایا:
“تم اپنے عبادت گاہوں میں اس شرعی تعلیم کی بازگشت سنتے چلے آ رہے ہو کہ تمہارے آباؤ اجداد کو یہ حکمِ حکیم دیا گیا تھا کہ اگر کوئی مرد اپنی زوجہ کے ساتھ رشتۂ نکاح کو فسخ کرنے کا عزم کرے، تو اس پر لازم ہے کہ وہ شریعت کے اعتبار سے ایک واضح اور معتبر سندِ طلاق تحریر کرے، تاکہ علیحدگی کا یہ امر محض زبانی الزام نہ رہے بلکہ ایک شرعی تحریری شہادت کی صورت اختیار کرے، جس کے ذریعے عورت کا حقِ عصمت، حرمتِ نکاح، اور عزتِ نسوانیت محفوظ رہے۔
“لیکن میں عیسیٰؑ، تم سے حق بات کہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص اپنی زوجہ کو محض خواہشِ نفس، دنیاوی نزاع، یا وقتی ناپسندیدگی کی بنیاد پر طلاق دیتا ہے، اور وہ عورت بدفعلی، خیانت یا فحاشی جیسے کبیرہ گناہوں سے بری اور پاک دامن ہو، تو دراصل وہ مرد اُس عورت کی عصمت پر درپردہ تہمت رکھتا ہے، اور خدا تعالیٰ کے میزانِ عدل میں ایک بے گناہ پر الزام باندھنے والے کے طور پر پیش ہوتا ہے۔ اور جو شخص کسی عورت کو سازش، فریب یا دنیاوی چالاکی سے طلاق دلوا کر خود اُس مطلّقہ سے نکاح کرتا ہے، وہ محض نکاح کا لباس پہن کر بدکاری کے باطن میں داخل ہو جاتا ہے،
اور ایسا عمل ربّ ذوالجلال کی شریعت میں زنا کے زمرے میں شمار ہوتا ہے، کیونکہ وہ رشتہ نیتِ فاسدہ، فریبِ حرام، اور ناپاک ارادے سے قائم کیا گیا، نہ کہ طہارتِ قلب، تقوٰی اور پاکیزہ نیت کے ساتھ قائم کیا گیا۔
شیخ سعدی شیرازیؒ
زنی را که باشد وفا در نهاد
طلاقش مده گر بمانی تو شاد
ولی گر بود فتنه انگیز و دغا
رہائی به از بند آن ناروا
ترجمہ:
اگر کسی عورت کے دل میں وفا ہو،
تو اُسے طلاق مت دو، کہ تمہاری خوشی اُسی میں ہے۔
لیکن اگر وہ فریب اور فتنہ پر آمادہ ہو،
تو اُس کے بندھن سے رِہائی بہتر ہے۔
تشریح:
شیخ سعدیؒ کا یہ حکیمانہ شعر اُس شرعی اصول کی نمائندگی کرتا ہے جو نیت کی صفائی، عصمت کی حفاظت، اور وفا کی عظمت پر قائم ہے۔ یہی تعلیم سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے اپنے کلام میں عطا فرمائی، جہاں طلاق جیسے عمل کو نیت اور باطن کے آئینے میں پرکھا گیا۔ اگر عورت وفاشعار ہو، تو بلا سبب طلاق دینا گویا اُس کی عزت پر خاموش تہمت ہے۔ اور جو کسی مطلّقہ سے فریب کے ساتھ نکاح کرتا ہے، وہ باطن میں گناہ کے دائرے میں داخل ہوتا ہے۔
نتائج:
- نکاح محض دنیاوی معاہدہ نہیں بلکہ ایک مقدس میثاق ہے جو دلوں، نیتوں اور روحوں کو اللہ کی رضا کے تحت جوڑتا ہے۔
- جو شخص بدنیتی کے ساتھ طلاق دیتا ہے، وہ صرف دنیاوی رشتہ نہیں توڑتا بلکہ ربّ العالمین کی عدالت میں ایک پاک دامن پر ناحق الزام کا بوجھ بھی اٹھاتا ہے۔
- گناہ صرف ظاہری افعال سے نہیں بلکہ ناپاک نیت، فاسد ارادہ اور غلط تجویز سے بھی جنم لیتا ہے، اور وہ بھی میزانِ عدلِ الٰہی میں حساب میں آتا ہے۔
- جو شخص کسی عورت کو طلاق دلوا کر اُس سے نکاح کرتا ہے، وہ اگرچہ دنیا کے قانون میں محفوظ ہو، رب تعالیٰ کی نگاہ میں وہ ایک باطنی گناہ اور اخلاقی خیانت کا مرتکب قرار پاتا ہے۔
- سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات کا اصل محور دلوں کی طہارت، رشتوں کی وفا، اور نیتوں کی پاکیزگی پر مبنی ہے، نہ کہ صرف ظاہری رسم و رواج پر ہے۔
اختتامیہ
سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی یہ تعلیم محض اخلاقی نصیحت نہیں بلکہ دل کی طہارت اور نیت کی صداقت کی طرف بلاتا ہوا ایک روحانی پیغام ہے۔ یہ سبق ہمیں یاد دلاتا ہے کہ رشتوں کا تقدس محض قانون سے نہیں بلکہ نیت، وفا اور باطن کی سچائی سے قائم رہتا ہے۔ اگر دل خالی ہو محبت اور اخلاص سے، تو کوئی رشتہ بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی صدا آج بھی دلوں کو جھنجھوڑتی ہے کہ محبت کے بغیر عبادت ایک خالی رسم ہے، اور وفا کے بغیر عدل ایک بے نور دعوٰی ہے۔