حضرت یوسفؑ کی تعبیر، حکمت اور تقرری

جب قید کا دروازہ کسی صابر کے لیے کھلتا ہے، تو سمجھو تقدیر نے کسی امت کی بھلائی کا فیصلہ کیا ہے۔ ربِّ ذوالجلال جب کسی بندے کی آزمائش کو عزت کا وسیلہ بنا دے، تو وہ لمحہ فقط رہائی نہیں بلکہ خلافتِ باطنہ کی ابتدا بن جاتا ہے۔ حضرت یوسفؑ کی حکمت ہمیں دکھاتی ہے کہ وحی کا علم، جب تدبیر سے جُڑ جائے، تو وہ قوموں کو فاقہ سے فلاح تک پہنچا دیتا ہے۔

فرعون کے حکم پر درباریوں نے قید خانے کی راہ لی۔ حضرت یوسفؑ کا سر اور چہرہ دربار کی رسم کے مطابق صاف کیا گیا، داڑھی تراشی گئی، لباس بدلا گیا، اور شاہی چوغہ پہنا کر دربار میں پیش کیا گیا۔

فرعون نے حضرت یوسفؑ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

“اے نوجوان! میں نے ایک خواب دیکھا ہے جس کی تعبیر ملک کے کسی دانا سے نہ ہو سکی۔ سنا ہے تم خواب سنتے ہی اُس کی حقیقت جان لیتے ہو؟”

حضرت یوسفؑ نے عاجزی سے عرض کیا:

“بادشاہ سلامت! تعبیر کا علم میرے اختیار کی بات نہیں۔ علمِ غیب کا راز صرف ربِّ علیم کے پاس ہے۔ وہی عطا کرتا ہے، وہی حقیقت دکھاتا ہے۔”

تب فرعون نے دونوں خواب سنائے۔

حضرت یوسفؑ نے فرمایا:

“بادشاہ سلامت! یہ دونوں خواب ایک ہی بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ مالکِ حقیقی آپ پر اپنی مشیّت ظاہر کر رہے ہیں۔ آپ نے سات موٹی گائیں اور سات بھرے خوشے دیکھے — یہ سات سال کی خوشحالی کی علامت ہیں۔ اس کے بعد جو سات دبلی گائیں اور سات سوکھے خوشے دیکھے، وہ سات سالہ قحط کا پتہ دیتے ہیں۔”

حضرت یوسفؑ نے بصیرت سے فرمایا:

“ربِّ ذوالجلال کی طرف سے یہ اشارہ ہے کہ پہلے سات سال ملکِ مصر میں پیداوار افراط سے ہوگی۔ لیکن اس کے بعد سات برس ایسا قحط نازل ہوگا کہ پہلے دنوں کی فراوانی کو لوگ بھول جائیں گے۔ خواب کا دو بار آنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ معاملہ حتمی ہے، اور جلد ظہور پذیر ہونے والا ہے۔”

پھر حضرت یوسفؑ نے فہم و فراست سے فرمایا:

“آپ کو چاہئے کہ ایک دیانت دار، دانا اور معاملہ فہم شخص کو امورِ خوراک کا منتظمِ اعلیٰ مقرر کریں۔ وہ سات سالہ خوشحالی میں ہر فصل کا پانچواں حصہ جمع کرے، اور اناج شہر بہ شہر، محفوظ گوداموں میں ذخیرہ کروائے۔ تاکہ قحط کے دنوں میں رعایا کو فاقے سے بچایا جا سکے۔ یہی ربِّ رحیم کی حکمت ہے جو آپ پر خواب کے ذریعے آشکار ہوئی ہے۔”


مولانا جامیؒ فرماتے ہیں

چو یوسف برآمد ز چاهِ بلا
شد او سرفراز از قضا و قدر

تشریح :

مولانا جامیؒ فرماتے ہیں: “جب حضرت یوسفؑ بلا کی گہرائی سے نکلے، تو قضا و قدر نے اُنہیں سرفراز کر دیا۔”
یعنی جب بندہ خاموشی، صبر اور اخلاص کے ساتھ رب پر بھروسا کرے، تو وہ آزمائش سے عظمت تک ضرور پہنچتا ہے۔


نتائج:

  1. وہی شخص قوم کی تدبیر کا حق دار ہے جو باطن میں رب پر بھروسا رکھتا ہو۔
  2. ربِّ علیم اپنے بندے کو وقت پر یاد دلاتا ہے، چاہے زمانہ اُسے بھلا دے۔
  3. تدبیر اور وحی جب ایک راستے پر جمع ہو جائیں، تو قحط بھی خیر کا سبب بن جاتا ہے۔
  4. جو علم، رب کی حضوری میں سیکھا جائے، وہ صرف فہم نہیں رہنمائی ہوتا ہے۔
  5. جب بندہ عزت کی تمنا چھوڑ دے، تو عزت خود اس کے در پر آ جاتی ہے۔

اختتامی خیال:

یہ وہ لمحہ تھا جب قید کا لباس عزت کی چادر میں بدل گیا۔ حضرت یوسفؑ، جو کل غلاموں کے سوداگر کے ہاتھ بکے تھے، آج سلطنت کے معتمد بننے جا رہے تھے۔ ربِّ ذوالجلال نے جسے صبر کی کنویں سے نکالا، اُسے تدبیر کے تخت پر بٹھا دیا۔ وقت نے گواہی دی کہ صبر، حلم اور ایمان وہ تاج ہیں جو بغیر شور کے پہنائے جاتے ہیں اور وہی تختِ حکمت بن جاتے ہیں۔

درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔