انتقام لینے کے متعلق تعلیم
انسانی فطرت میں بدلے کا جذبہ ایک فطری تموج رکھتا ہے، مگر شریعتِ الٰہی بندے کو اس جبلت سے اٹھا کر حلم، بردباری اور خُلقِ کریمانہ کی بلند چوٹیوں تک پہنچنے کی دعوت دیتی ہے، کہ انتقام اگرچہ بظاہر عدل کی صورت میں نظر آتا ہے، لیکن جب بندۂ مومن اپنے نفس کی حد سے بلند ہو کر رب تعالیٰ کی رضا کی خاطر معاف کر دے، تو یہی عمل عدل سے بلند تر، یعنی فضل کا مظہر بن جاتا ہے، اور یہی وہ کمالِ شریعت ہے کہ وہ ظلم کا مقابلہ ظلم سے نہیں، بلکہ حلم، احسان اور رحمت سے کرتی ہے، اور سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم اسی نورانی خُلق کا جیتا جاگتا نمونہ ہے، جہاں ردعمل کی بنیاد انتقام نہیں بلکہ درگزر، مواساۃ اور دل کی بلندی ہے۔
انتقام اور محبت
سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے لوگوں سے ارشاد فرمایا:
“تم اپنی عبادت گاہوں میں بارہا یہ شرعی فرمان سنتے چلے آ رہے ہو کہ ربِّ ذوالجلال نے تمھارے آباؤ اجداد کو یہ حکمِ حکیم عطا فرمایا تھا: آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت”
لیکن میں، عیسیٰ، تم سے وہ بات کہتا ہوں جو صداقت و بصیرت کی روشنی سے منور ہے، کہ تم ظلم کا جواب ظلم سے نہ دو اور نہ ہی برائی کے مقابلے میں انتقام اور بدلہ لینے کی آگ کو بھڑکاؤ، بلکہ اگر کوئی شخص تمہارے دائیں گال پر طمانچہ مارے، تو صبر و تحمل، حلم و وقار کی خاطر اپنا دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دو، تاکہ وہ جان لے کہ تم دنیا کے قانون سے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے حلم و عفو کے آئینے سے روشنی لیتے ہو، اور تمہارا ظرف اُس اخلاقِ کریمانہ کا مظہر ہے جس سے انبیاء کرام نے امتوں کی تربیت فرمائی۔
اور اگر کوئی شخص تم پر دعوٰی کر کے تمھارے قمیض چھین لینے کا ارادہ رکھتا ہو، تو تم اپنے ظرف کی بلندی، نیت کی صفائی اور دل کی وسعت سے اس پر سختی نہ کرو، بلکہ اپنی چادر بھی خوش دلی کے ساتھ اُس کے حوالے کر دو، تاکہ وہ جان لے کہ تم مال و متاع کے بندے نہیں، بلکہ حلم و احسان کے وارث ہو، اور تمہارا دل دنیا کے چھیننے پر تنگ نہیں بلکہ ربِ کریم کے لئے دینے پر کشادہ ہے۔
اور اگر کوئی سرکاری کارندہ تمہیں بیگار میں ایک میل تک ساتھ چلنے پر مجبور کرے، تو تم صبر و انکسار کے ساتھ، خوش دلی اور خندہ پیشانی سے دو میل تک اُس کے ساتھ چلنے کو آمادہ ہو جاؤ، کہ تمہارا رویہ بندوں کی نہیں بلکہ ربِ رحیم کی رضا کی تلاش میں ہو، اور اگر کوئی محتاج تم سے سوال کرے تو اس کے سوال کو محرومی سے نہ ٹالو بلکہ وسعتِ قلب سے اسے عطا کرو، اور جو تم سے قرضِ حسنہ طلب کرے، تو اُسے خالی ہاتھ واپس نہ لوٹاؤ، کہ سخی کا دل دینے میں راحت پاتا ہے، اور جو اپنے مال سے خلقِ خدا کی ضرورت پوری کرتا ہے، وہ دراصل اپنے ربّ سے قرب حاصل کرتا ہے۔
حضرت شیخ سعدی شیرازیؒ
کرم کن چنانکاں توانی کرم
مکافات را ترک کن، دم بہ دم
ترجمہ:
جتنا تم سے ہوسکے، کرم کرتے رہو
اور ہر گھڑی بدلہ لینے کو ترک کر دو
تشریح :
شیخ سعدیؒ کا یہ حکمت آفریں شعر سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی نورانی تعلیم کا آئینہ بن کر جلوہ گر ہوتا ہے، جہاں صبر کو ضعف نہیں بلکہ قوت قرار دیا گیا ہے، اور معافی کو کمزوری نہیں بلکہ فضیلت و کمال کا مرتبہ بخشا گیا ہے، کہ شریعت کا حقیقی تقاضا صرف بدلہ نہیں بلکہ دل کی تطہیر، نیت کی روشنی اور روح کی بلندی ہے، اور انتقام اگرچہ بظاہر عدل کی صورت رکھتا ہے، لیکن معافی ربِ کریم کی صفات میں سے ایک صفت ہے، اور جو بندہ راہِ معافی اختیار کرتا ہے، وہ دراصل اپنے باطن کو اللہ تعالیٰ کی صفاتِ جمال سے قریب کر لیتا ہے۔
نتائج:
- شریعت نے مظلوم کو بدلے کی اجازت دی، مگر معافی کو بلند درجہ اور ربانی رضا کا ذریعہ قرار دیا، کہ عدل حق ہے، اور معافی فضل۔
- جو انتقام کو ترک کر کے حلم و نرمی کو اپناتا ہے، وہ خُلقِ الٰہی سے متصل ہو جاتا ہے، اور یہی باطنی بلندی کی علامت ہے۔
- صبر، احسان اور ایثار وہ صفات ہیں جو بندے کو ربّ کے قرب سے ہمکنار کرتی ہیں، اور عام عبادات پر فائق نظر آتی ہیں۔
- حضرت عیسیٰؑ کی تعلیم انسان کو نفس سے بلند کر کے رضائے الٰہی کی طرف بلاتی ہے، جہاں ردعمل کی جگہ رحمت اور بردباری کو مقام دیا جاتا ہے۔
- سچّا مومن وہی ہے جو ظلم کے جواب میں دشمنی نہیں، بلکہ محبت، دعا اور اخلاق سے کام لیتا ہے، اور یہی اس کی بندگی کی پہچان ہے۔
اختتامیہ
سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی یہ نورانی تعلیم ہمیں اس اخلاقی معراج کی طرف رہنمائی دیتی ہے جو محض زمینی انصاف نہیں بلکہ ربانی احسان پر استوار ہے، اور جہاں انتقام لینا بشری فطرت ہو سکتا ہے، وہاں معاف کر دینا انبیاء کرام کی وراثت، اہلِ خُلق کی علامت، اور رضائے الٰہی کی سبیل ہے، کیونکہ جو دل درگزر کی لطافت سے آشنا ہو جائے، وہ نفس کی ظلمت سے نکل کر فضلِ خداوندی کا آئینہ بن جاتا ہے، اور جو ہاتھ عطا کے لئے اٹھے، وہ درِ محرومی پر قفلِ رحمت ثبت کر دیتا ہے، یہی وہ تعلیم ہے جو المسیحؑ کی صدائے حکمت کی صورت آج بھی اہلِ دل کو جھنجھوڑتی ہے۔