دشمنوں کے متعلق تعلیم

انسان کی طبیعت میں یہ بات جمی ہوئی ہے کہ وہ اپنے خیرخواہوں سے محبت کرے اور دشمنوں سے کنارہ کشی اختیار کرے، مگر شریعتِ الٰہی انسان کو صرف اپنی طبیعت کے تابع نہیں چھوڑتی بلکہ اُسے اخلاق کی بلندی، صبر کی روشنی، اور ربِ کریم کی رضا کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ عام لوگوں کا طریقہ یہی ہے کہ دشمنی کا جواب دشمنی سے دیا جائے، لیکن انبیائے کرام علیہم السلام کا راستہ اس سے کہیں اونچا ہے، وہ راستہ جس میں دشمن کو بھی دعاؤں سے یاد کیا جاتا ہے، ایذا پہنچانے والے کے لیے بھلائی کی تمنا کی جاتی ہے، اور نفرت کے مقابلے میں محبت کا چراغ جلایا جاتا ہے۔ یہی ایمان کی وہ پہچان ہے جو انسان کو خالق کے قریب لاتی ہے۔


دشمنوں سے حسن سلوک

سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے اپنی امت کو نہایت حلم و حکمت سے مخاطب فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
“تم اپنے عبادت خانوں میں یہ تعلیم سنتے رہے ہو کہ اللہ ربّ العزت نے فرمایا: ‘اپنے دوستوں، احباب اور پڑوسیوں سے نرمی اور بھلائی سے پیش آؤ۔’
لیکن تم نے اس فرمانِ الٰہی کو اپنی سوچ کے ترازو سے یوں سمجھ لیا کہ ‘دشمنوں سے نفرت رکھنا بھی واجب ہے۔’

“لیکن میں، عیسیٰ، تم سے یہ بات حق کے ساتھ کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے بھی محبت کرو، اور جو تمہیں تکلیف دیتے ہیں، ان کے حق میں دعا کرتے رہو، تاکہ تم سچے دل سے ربُّ العرش کے وہ بندے ٹھہرو جو اُس کی رضا کے طالب اور اُس کی فرمانبرداری کے خوگر ہوں۔ “کیونکہ اللہ تعالیٰ کا سورج نیکوں پر بھی چمکتا ہے اور گناہگاروں پر بھی،
اور اُس کی بارش پرہیزگاروں کے کھیتوں کو بھی سیراب کرتی ہے اور بےعمل لوگوں کے کھیتوں کو بھی کو بھی سیراب کرتی ہے۔
اگر تم صرف اُنہی کے ساتھ خیرخواہی اور بھلائی کا برتاؤ کرو جو تمہارے ساتھ حسنِ سلوک کرتے ہیں، تو پھر تم کس اجرِ ربانی کے طلبگار ہو؟ یہ تو وہ عمل ہے جو دنیادار اور مفاد پرست لوگ بھی اپنے ذاتی فائدے کے لئے اختیار کرتے ہیں، حتیٰ کہ وہ چنگی لینے والے بھی جو عدل و وفا سے محروم اور قوم کے امانت دار نہیں ہوتے وہ ایسی ہی روش اپناتے ہیں۔
اور اگر تم صرف اپنے دوستوں، احباب ہی سے دعا و سلام، محبت و تعلق قائم رکھو، تو تم نے کون سا کمالِ ایمان حاصل یہ تو وہ طرزِ عمل ہے جو کفار و مشرکین، دنیا پرست اور دین سے غافل لوگ بھی روا رکھتے ہیں۔

پس واجب ہے کہ تم بھی اپنے خُلق و معاملے میں اُس ربِّ ذوالجلال کی سیرت کو اختیار کرو، جس کی رحمت ہر مخلوق پر سایہ فگن ہے، اور جس کا احسان نیک و بد، مومن و فاجر سب کے لیے یکساں ہے۔ جس طرح پروردگارِ عرش عظیم حسنِ سلوک میں کامل و اکمل ہے، اسی طرح تم بھی بندگانِ خدا کے لیے محبت، حلم اور نرمی میں کامل نمونہ بنو۔


حضرت اوحدالدین کرمانیؒ:

هر که با دشمن به احسان زِ جان وفا نکند از صفاتِ حق خبر نیست، دعویٰ بی‌جا کند

ترجمہ:
جو شخص دشمن کے ساتھ بھی وفا اور احسان سے پیش نہ آئے،
وہ درحقیقت صفاتِ الٰہی سے ناواقف ہے، اگرچہ زبان سے دعویٰ کرتا رہے۔

تشریح:
حضرت اوحدالدین کرمانیؒ کے اس حکیمانہ شعر میں وہی نورِ حقیقت نمایاں ہے جو سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات میں روشن ہوتا ہے۔ المسیحؑ نے انسانوں کو سکھایا کہ محبت صرف احباب تک محدود نہ رہے، بلکہ دشمنوں کو بھی ربِّ کائنات کی مخلوق جان کر ان کے لئے خیر خواہی، دعا اور نرم دلی کے دروازے کھلے رکھے جائیں۔ یہی تعلیم نفرت کو مٹاتی ہے، دل کو وسعت عطا کرتی ہے، اور انسان کو اس خُلقِ رحمت کی طرف لے جاتی ہے جو انبیائے کرام کا ورثہ ہے۔


نتائج

  1. شریعتِ الٰہی نے دشمنی کے بدلے کی گنجائش رکھی ہے، مگر اس سے بلند تر درجہ اُس عمل کو دیا ہے جو دشمنی کے مقابلے میں محبت، دعا اور خیرخواہی کو شعار بناتا ہے۔
  2. جو بندہ اپنے دشمن کے لیے دعا کرتا ہے اور اس پر رحم کی نظر رکھتا ہے، وہ درحقیقت صفاتِ ربانی جیسے رحمت، بردباری اور عفو کے قرب میں داخل ہو جاتا ہے۔
  3. صرف اپنے دوستوں سے محبت کرنا عام انسانی رویہ ہے، مگر دشمنوں سے بھلائی کرنا وہ خلق ہے جو انبیاء کرام کا امتیاز اور ان کا ورثہ ہے۔
  4. سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی نورانی تعلیم انسان کو صرف ظاہری اخلاقیات کی نہیں بلکہ باطنی کمالات اور روحانی بلندی کی طرف دعوت دیتی ہے۔
  5. کامل ایمان اسی کے نصیب میں آتا ہے جو محبت میں کامل ہو، اور دشمنی کے لمحوں میں بھی اپنے ربّ کے اخلاقِ کریمہ کا مظہر بن کر جیتا ہو۔

اختتامیہ
سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی یہ نورانی تعلیم ہمیں اس حقیقت کی یاد دہانی کراتی ہے کہ محبت کا پیمانہ صرف اپنوں کے ساتھ حسنِ سلوک تک محدود نہیں، بلکہ ان لوگوں کے لئے بھی خیرخواہی، نرمی اور دعا کا رویہ اختیار کرنا لازم ہے جو ہمیں دل کی گہرائیوں میں تکلیف دیتے ہیں۔ دشمنی کا بدلہ دشمنی سے دینا تو نفس کا فطری تقاضا ہے، مگر جو شخص دشمنی کا جواب محبت، دعا اور خاموشی سے دیتا ہے، وہ دراصل اپنے دل کو طہارت، اور اپنی روح کو بلندی عطا کرتا ہے۔