خیرات کے متعلق تعلیم
جب بندۂ مومن نیکی صرف اس لیے بجا لاتا ہے کہ اُس کا ربّ راضی ہو جائے، تو اُس کے قلب میں اخلاص کا ایسا نور پیدا ہوتا ہے جو عمل کے چہرے کو حسن و جلال سے آراستہ کر دیتا ہے۔ مگر جب یہی نیکی مخلوق کی نگاہوں کے لیے، شہرت و ناموری کے جذبے سے کی جائے، تو وہ نورانی عمل ظاہری چمک کے باوجود اندر سے کھوکھلا اور بے وزن ہو جاتا ہے۔ اخلاص، عبادت کی روح ہے وہ باطنی خوشبو جو اعمال کو عرش کی جانب بلند کرتی ہے۔ اور ریا وہ زہر ہے جو بندگی کے جسم کو گلا دیتا ہے، اور نیکی کو ثواب کے بجائے وبال بنا دیتا ہے۔
خالص عمل کی برکت
سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے لوگوں سے کا ارشاد فرمایا:
“خبردار! نیک اعمال کو محض خلقِ خدا کی نمائش کے لئے انجام مت دو، کہ اگر ایسا کرو گے تو تمہیں اپنے پروردگار، ربُّ العرشِ عظیم کی بارگاہ سے کسی اجر و ثواب کی امید نہ رہے گی۔
پس جب تم صدقہ، خیرات یا زکوٰۃ کی ادائیگی کرو، تو اُسے شہرت کا ذریعہ نہ بناؤ، اور نہ ہی اپنے نفس کی بزرگی کا چرچا کرو؛ اس لئے کہ ایسا طرزِ عمل تو اُن منافقین کا ہے جو گلیوں، بازاروں اور عبادت گاہوں میں ریاکاری کے ساتھ اپنی سخاوت کی تشہیر کرتے پھرتے ہیں۔
یقین جانو، اُن کے لئے جزا یہی دنیاوی واہ واہ ہے جس کی خاطر وہ نیکی کو آلودہ کرتے ہیں، اور خداوندِ علیم و خبیر کی جناب سے اُن کے لئے کچھ بھی عطا ہونے والا نہیں۔
“میں، عیسی ٰ، تم سے حق کے ساتھ فرماتا ہوں کہ جب تم صدقہ، خیرات یا زکوٰۃ کی ادائیگی کرو، تو اس امر کو پیشِ نظر رکھو کہ تمہارا دایاں ہاتھ جب راہِ خدا میں خرچ کرے، تو بایاں ہاتھ بھی بے خبر رہے۔ یعنی یہ عمل اس قدر اخلاص اور پوشیدگی سے ہو کہ کسی مخلوق کو اس کی ہوا تک نہ لگے۔
اور یاد رکھو، تمہارا پروردگار، جو عالمُ الغیب ہے، وہ تمہارے باطنی ارادوں اور مخفی صدقات سے بھی بخوبی واقف ہے، اور وہی تمہیں اس کا اجر و صلہ اپنی شان کے مطابق عطا فرمائے گا۔
حضرت شیخ سعدیؒ
نیکی آن کن کہ خُدا بیند، نہ خلق
در خفا بہرِ رضا، بیفخر و قیل و قال
ترجمہ:
نیکی وہی ہے جو خُدا دیکھے، نہ مخلوق۔
ایسی نیکی چھپ کر کرو، صرف اُس کی رضا کے لیے، بغیر فخر اور شور شرابے کے۔
تشریح:
اس شعر میں شاعر نے اس نکتۂ لطیف کو بیان فرمایا ہے کہ نیکی وہی ہے جو محض خالقِ کائنات کی رضا کے لیے ہو، نہ کہ مخلوق کی ستائش کے لیے۔ جو خیرات خفیہ ہو، جو اخلاص سے مہک رہی ہو، جو فخر، ریا اور قیل و قال سے پاک ہو، وہی عنداللہ مقبول ہے۔ یہی وہ نورانی مفہوم ہے جو سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے اپنے ارشاد میں عطا فرمایا کہ نیکی کو اس قدر پردۂ اخلاص میں رکھا جائے کہ دائیں ہاتھ کی سخاوت سے بایاں ہاتھ بھی بے خبر رہے، کیونکہ جو عمل صرف خدا کے لیے ہو، وہی بارگاہِ الٰہی میں شرفِ قبولیت پاتا ہے اور بندے کو قربِ ربّانی عطا کرتا ہے۔
نتائج:
- نیکی کا اصل جوہر وہ رضا ہے جو بندہ اپنے ربّ کی خوشنودی کے لیے طلب کرتا ہے، نہ کہ وہ ستائش جو خلقِ خدا کی زبان سے بلند ہو۔
- وہ عمل جو ریا کی آلائش میں لپٹا ہو، خواہ ظاہر میں کیسا ہی حسین دکھے، بارگاہِ ربّانی میں مردود قرار پاتا ہے۔
- خلوصِ دل سے کی گئی چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی، اللہ کے نزدیک بلند مرتبہ پاتی ہے اور عرش کی رفعتوں تک جا پہنچتی ہے۔
- سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے ہمیں تعلیم دی کہ نیکی کو خاموشی کی چادر اوڑھاؤ، اور اسے شہرت و نمود کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھو۔
- وہی بندہ قربِ الٰہی کا وارث بنتا ہے جو اپنی خیرات اور نیکی میں اخلاص کی روش اختیار کرتا ہے اور اسے ربّ ہی کے حضور پیش کرتا ہے۔
اختتامیہ:
سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی اس حکمت بھری تعلیم میں وہ روحانی سیلاب رواں ہے جو دلوں کو اخلاص کے آبِ شفاف سے دھو دیتا ہے۔ نیکی کو اس طرح پنہاں رکھو جیسے راز کو دل کے نہاں خانہ میں چھپایا جاتا ہے، اور فقط اُس ربّ کی رضا مطلوب ہو جس نے قلب کو نور سے تراشا ہے۔ ریا کی واہ واہ فانی ہے، مگر عالمُ الغیب کا عطا کردہ صلہ وہ ہے جو دل کو طمأنینت، روح کو وقار، اور بندگی کو قبولیت بخشتا ہے۔