سبق 9۔ فرعون کا سمندر میں غرق ہونا

ایتام میں قیام کے دوران تجلیء الٰہی کے ذریعے خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ سے کلام فرمایا! بنی اسرائیل قوم کو بتاؤ کہ اپنا راستہ بدل لیں اور مَجدل (مجدال) کے سمندر کے درمیان” فَمُ الحِیرُوث” کے پاس پہنچ کر اپنے خیمے بعل دیوتا کے شمالی مندر کے سامنے نصف کریں۔ جب یہ خبر فرعون کو ملے گی تو وہ یہ ہی سوچے گا کہ بنی اسرائیلی لوگ صحرا اور سمندر کے درمیان پھنس گئے ہیں۔ کیونکہ فرعون میں تکبر اور غرور ہے اسلئے وہ تمہارا تعاقب کرے گا لیکن اس کے نتیجے میں فرعون اور اس کی فوج کا جو حال ہوگا اس سے میرا ذکر بلند وبالا ہوگا اور مصری جان جائیں گے کہ ” اَنَا خَیْرُ المُدَبّرین” (بے شک میں تدبیر والوں میں بہترین ہوں) چناچہ جیسا خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو حکم فرمایا تھا بنی اسرائیل نے ویسا ہی کیا۔
اُدھر فرعون کو خبر ملی کہ بنی اسرائیلی کہاں ہیں تو نہ صرف وہ بلکہ اس کے درباری بھی اپنے قول سے مکر گئے اور چلانے لگے۔ ہم نے یہ کیا کردیا؟ اب ہماری غلامی کون کرے گا؟ چناچہ فرعون نے بنی اسرائیل کا پیچھا کرنے کے لئے فوج کے رتھ تیار کروانے کا حکم دیا۔ جب رتھ تیار ہوچکے اور فوج جمع ہوگئی تو فرعون کے چھ سو بہترین رتھوں سمیت مصر کے تمام دستیاب رتھ اپنے اپنے سرداروں کی کمان میں بنی اسرائیل کو پکڑنے کے لئے آگے بڑھے۔ فرعون کی رہنمائی میں بنی اسرائیل کے تعاقب میں یہ لشکر روانہ ہوا جو بڑی دلیری سے چلے جا رہے تھے۔ اس لشکر نے سمندر کے درمیان واقع فَمُ الحِیرُوث پہنچ کر بعل کے مندر کے سامنے بنی اسرائیل کو جا لیا۔
جیسے ہی بنی اسرائیل نے فرعون کا لشکر آتے دیکھا تو خوف کے مارے یا اللّٰہ مدد کی دہائی دینے لگے اور بڑبڑا کر حضرت موسیٰؑ سے کہنے لگے! کیا مصر میں ہماری لئے کوئی قبر نہ تھی جو آپ مروانے کے لئے یہاں لے آئے ہیں ؟ آخر ایسی کیا مصیبت پڑی تھی کہ آپ ہمیں اس صحرا میں لے آئے؟ بنی اسرائیلی مزید حضرت موسیٰؑ کو کہنے لگے! ہم نے آپ کو کہا تھا کہ ہمیں یہیں رہ کر مصری آقاؤں کی خدمت کرنے دیں۔ اس صحرا میں مرنے سے تو بہتر تھا کہ ہم مصریوں کی غلامی ہی کر لیتے۔
حضرت موسیٰؑ نے بنی اسرائیلیوں کو جواب دیا! خوفزدہ مت ہو، ثابت قدم رہ کر صرف اپنے رب کی فتح و نصرت دیکھتے رہو کیونکہ آج کے دن کے بعد تم اس لشکر کو کبھی نہ دیکھو گئے۔ خدا تعالیٰ کی پاک قدرت خود اس لشکر کو برباد کرے گی تمہیں صرف دیکھتے رہنا ہے۔
اتنے میں خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ سے کلام کرکے حکم دیا! بنی اسرائیل قوم سے کہو تم چلا کیوں رہے ہو؟ تم اپنے خیمے اکھاڑو اور چل پڑو۔ موسیٰؑ! تمہیں صرف اتنا کرنا ہے کہ تم اپنا عصا سمندر کی طرف بڑھاؤ تاکہ پانی دو حصوں میں تقسیم ہو جائے اور بنی اسرائیل کا قافلہ خشکی پر چلتا ہوا سمندر کے پار اتر جائے۔ مصری لوگوں کے دل سخت ہیں اسلئے وہ تمہارے پیچھے پیچھے سمندر میں اتر آئے گے۔ میں فرعون کے لاؤ لشکر کو ان کے رتھوں سمیت سمندر میں غرق کر دوں گا تاکہ میرا ذکرِ عظیم بلند وبالا ہو اور مصری جان جائیں کہ صرف میں ہی الفتاح ہوں۔
خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق بنی اسرائیل قوم نے چلنا شروع کیا تو تجلیء الٰہی کا بادل قافلے کے سامنے سے ہٹا اور پیچھے کی سمت جاکر مصری لشکر اور بنی اسرائیل کے درمیان حائل ہوگیا۔ رات کی تاریکی تو تھی ہی اوپر سے بادل بھی آن پہنچا تو مصری لشکر گویا اپنی بصارت ہی کھو بیٹھا!
اسی اثنا میں سمندر کے کنارے پہنچ کر حضرت موسیٰؑ نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور خدا تعالیٰ کے حکم سے مشرق کی جانب زور دار ہوا چلنا شروع ہوگئی۔ ساری رات چلنے والی ہوا نے سمندر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے سمندر کے بیچ خشک راستہ بنا دیا۔ بنی اسرائیل اس خشکی پر چلتے ہوئے سمندر کے پار نکلنے لگے تو ان کے دائیں اور بائیں جانب پانی یوں کھڑا تھا کہ گویا دیواریں ہوں۔ ادھر مصری لشکر بھی اپنے رتھوں سمیت بنی اسرائیل کے پیچھے پیچھے سمندر میں گھس گیا۔ صبح صادق سے کچھ دیر پہلے جب پورا مصری لشکر سمندر کے بیچوں بیچ پہنچا تو القھار نے آتشی بادل میں سے نگاہِ قہر اور مصریوں کو ایک مخمصے میں مبتلا کردیا۔ ہوا یوں کہ لشکر میں شامل رتھوں کے پہیے کیچڑ میں دھنس گئے اور وہ دوڑنے بجائے رینگنے لگے۔ مصریوں نے یہ دیکھا تو گھبرا کر چلانے لگے کہ بنی اسرائیلیوں کا دیوتا ہمارے خلاف کڑا ہے۔
جب بنی اسرائیلی دوسرے کنارے پہنچ گئے تو خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ سے کلام کرکے حکم دیا کہ” اب اپنا ہاتھ اسی طرح دوباره سمندر کی طرف بڑھاؤ تاکہ پانی دوباره پہلے والی جگہ پر واپس آ جائے اور تمام مصری اپنے رتھوں سمیت ڈوب جائیں۔ جیسے ہی حضرت موسیٰ نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو سمندر واپس اپنی جگہ پر آگیا پانی بڑھتا گیا اور فرعون کا لشکر اپنے حرب سمیت یوں غرق ہوگیا جبکہ بنی اسرائیل کا قافلہ سمندر کے پار یوں گزر گیا کہ ان کے پاؤں کے نیچے خشکی اور دائیں اور بائیں جانب پانی کی دیوار تھی۔
اس دن خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو مصریوں کے ظلم و جبر سے ہمیشہ کے لئے نجات دلا دی اور انہوں نے سمندر کے پار کھڑے ہو کر مصریوں کو غرق ہوتے ہوئے دیکھا۔
جب بنی اسرائیل کی جماعت نے جبروت الٰہی کا نظارہ دیکھا تو حیران ہوگئے اور بنی اسرائیلیوں کی پیشانیاں خدا تعالیٰ کے حضور سجدوں میں جھک گئیں۔ اور بنی اسرائیل دل ہی دل میں خدا تعالیٰ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے حضرت موسیٰؑ کے قائل ہوگئے۔

درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔