سمندر کا راستہ اور قہار کا ظہور
جب باطل کا غرور حد سے گزرے، اور مظلوم کی آہ آسمان چیرنے لگے، تب ربِّ قہار اپنی قدرت سے ایسی تدبیر کرتا ہے جسے عقل دنگ، اور دل عاجز ہو جاتے ہیں۔ بنی اسرائیل کی رہائی کا لمحہ بھی ایسا ہی تھا جب سمندر حائل، پیچھے دشمن، اور سامنے ربّ کا وعدہ تھا۔ پس نبی کے اشارے پر موجیں سرنگوں ہوئیں، اور قہرِ الٰہی نے فرعون کی سلطنت کو سمندر میں دفن کر دیا۔
ایتام میں قیام کے دوران ربّ تعالیٰ کی تجلی حضرت موسیٰؑ پر نازل ہوئی اور آپؑ کو حکم دیا گیا کہ بنی اسرائیل سے کہو اپنا راستہ تبدیل کریں اور مجدل کے ساحلوں کی سمت، فَمُ الحِیرُوث کے مقام پر، بعل کے شمالی معبد کے بالمقابل اپنے خیمے نصب کریں۔ ربِّ حکیم نے فرمایا: جب یہ خبر فرعون کو پہنچے گی تو وہ گمان کرے گا کہ بنی اسرائیل صحرا اور بحر کے درمیان پھنس گئے ہیں۔ وہ تکبر کے نشے میں تمہارا پیچھا کرے گا، لیکن میرا قہر اُس پر نازل ہوگا، تاکہ میرا نام بلند ہو، اور مصر جان لے کہ “أنا خیر المدبّرین” – میں تدبیر کرنے والوں میں سب سے بہتر ہوں۔
چنانچہ حضرت موسیٰؑ نے حکم کی تعمیل کی۔
ادھر فرعون کو جب بنی اسرائیل کی جگہ کا علم ہوا، تو وہ اور اس کے درباری اپنے فیصلے پر پچھتائے، اور کہنے لگے: “ہم نے یہ کیا کر دیا؟ ہمارے غلام تو چلے گئے! اب کون ہماری خدمت کرے گا؟”
پس فرعون نے اپنی جنگی رتھ تیار کرنے کا حکم دیا۔ چھ سو اشرافی رتھ، مصر کے دیگر تمام دستیاب رتھوں کے ساتھ، اپنے سرداروں کی قیادت میں نکلے۔ وہ دلیری اور غرور کے نشے میں بنی اسرائیل کے تعاقب میں روانہ ہوئے، اور فَمُ الحِیرُوث پہنچ کر بعل کے مندر کے سامنے بنی اسرائیلی قافلے کو آن لیا۔
بنی اسرائیلیوں نے جب لشکرِ فرعون کو نزدیک پایا، تو دلوں پر ہیبت طاری ہوئی۔ وہ چیخنے لگے، ربّ کی مدد کو پکارا، اور حضرت موسیٰؑ سے شکایت کی:
“کیا مصر میں ہماری قبریں کم تھیں جو ہمیں یہاں مرنے کے لیے لے آئے؟ کیا بہتر نہ ہوتا کہ ہم وہیں غلامی کرتے رہتے؟”
حضرت موسیٰؑ نے انہیں تسلّی دی: “خوف نہ کرو، ثابت قدم رہو، اور اپنے ربّ کی نصرت کا نظارہ کرو۔ آج کے بعد تم ان دشمنوں کو کبھی نہ دیکھو گے۔ ربّ خود تمہارے لیے جنگ کرے گا، اور تمہیں صرف دیکھنا ہوگا۔”
اسی وقت ربّ کریم نے موسیٰؑ سے کلام فرمایا: “اے کلیم! قوم سے کہو کہ حرکت کریں، اور تم اپنا عصا سمندر پر بلند کرو۔ میں سمندر کو دو حصوں میں تقسیم کر دوں گا تاکہ میری قوم خشکی پر گزر سکے۔ مصری ان کے پیچھے آئیں گے، اور میں انہیں ان کے لشکر، رتھوں اور غرور سمیت غرق کر دوں گا تاکہ میرا ذکر عظمت سے بلند ہو اور سب جان لیں کہ میں ہی الفتاح ہوں۔”
چنانچہ بنی اسرائیلی قافلہ روانہ ہوا، اور ربّ کی تجلی جو دن میں بادل اور رات کو شعلہ تھی، ان کے آگے سے ہٹ کر پیچھے چلی گئی یہاں تک کہ فرعون اور اس کی فوج کے درمیان حجاب بن گئی۔ شب کی تاریکی کے ساتھ جب بادل بھی چھا گیا تو مصری اپنی راہ کھو بیٹھے۔
حضرت موسیٰؑ نے ربّ کے حکم سے اپنا ہاتھ بڑھایا، اور مشرقی سمت سے زوردار ہوا چلی۔ ساری رات چلنے والی اس ہوا نے سمندر کے سینے کو چاک کر دیا پانی دیواروں کی مانند دونوں جانب کھڑا ہوگیا، اور بیچ میں خشکی نمودار ہو گئی۔
بنی اسرائیلی اس خشکی پر چلتے ہوئے گزرنے لگے۔ ادھر فرعون کا لشکر، غرور اور غفلت میں، انہی کے پیچھے سمندر میں داخل ہو گیا۔
جب وہ بیچ میں پہنچے، ربِ قہار نے اپنا قہر دکھایا: رتھوں کے پہیے کیچڑ میں دھنس گئے، اور سپاہی گھبرا کر بولے: “بنی اسرائیلیوں کا ربّ ہم پر سخت ہے!”
پھر خدا تعالیٰ نے حکم دیا: “اے موسیٰؑ! اپنا ہاتھ پھر سے سمندر پر بلند کرو، تاکہ پانی اپنی حالت پر لوٹ آئے۔”
جب حضرت موسیٰؑ نے ایسا کیا، تو موجیں اٹھیں، پانی نے سمندر کو پھر بھر دیا، اور فرعون اپنے تخت، لشکر، اور غرور سمیت غرق ہو گیا۔
بنی اسرائیلی سمندر پار کر کے خشکی پر پہنچ چکے تھے اُن کے پاؤں کے نیچے زمین، اور دائیں بائیں ربّ کی قدرت کی دیواریں تھیں۔
جب انہوں نے ظلم کے لشکر کو ڈوبتے دیکھا، تو ان کے دل ربّ کی عظمت سے لرز اٹھے، اور وہ سجدوں میں گر گئے۔ اُس روز بنی اسرائیلی دل سے حضرت موسیٰؑ پر ایمان لائے، اور ربّ کی قدرت کے قائل ہو گئے۔
تاجِ فرعون ز جو شد بہ کفِ موجِ غضب
تا بداند کہ خدا، میشکند تختِ طلب
تشریح:
فرعون کا تاج موجِ قہر میں ڈوبا تاکہ جان لے کہ ربّ طلب و تکبر کے تخت کو توڑنے والا ہے۔
نتائج:
- ربّ تعالیٰ کی تدبیر ہمیشہ اہلِ غرور کی چال پر غالب آتی ہے۔
- ایمان کی کشتی کبھی قعرِ بحر میں غرق نہیں ہوتی جب ربّ کی تجلی ساتھ ہو۔
- نبی کی اطاعت، دشمنوں کے سامنے راہِ نجات کا دروازہ کھولتی ہے۔
- فرعون کا غرور سمندر میں دفن ہوا، تاکہ رہتی دنیا تک عبرت باقی رہے۔
- جو قوم اللہ پر توکل کرے، اُس کی راہ میں سمندر بھی سرنگوں ہو جاتا ہے۔
اختتامیہ:
یہ واقعہ محض ایک تاریخی معجزہ نہیں، بلکہ ایک ربانی اعلان ہے کہ جب اہلِ حق صبر، استقامت اور نبی کی رہنمائی پر یقین رکھتے ہیں، تب قہرِ الٰہی اُن کے دشمنوں پر نازل ہوتا ہے، اور موجیں بھی راستہ دے دیتی ہیں۔ اور جو اپنے ربّ کے سامنے سجدہ کرے، وہ انجامِ خیر کا وارث ہوتا ہے۔
درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔