سرزمین کی تقسیم، پناہ کے شہر، اور لاویوں کا حصہ
جب امت کو فتح نصیب ہو جائے، تو اصل آزمائش اس کے بعد آتی ہے وہ لمحہ جب تلواریں نیام میں رکھی جاتی ہیں، اور فیصلے قلم سے کیے جاتے ہیں؛ جب دلوں کی آزمائش شروع ہوتی ہے، نیتوں کی پرکھ ہوتی ہے، اور قیادت کے فیصلے قوم کی تقدیر بن جاتے ہیں۔
حضرت یشوع بن نونؑ کی قیادت میں جب دشمن خاموش، میدان پر سکون، اور زمین رب العزت کے وعدے کی گواہ بن چکی، تو اب وقت تھا کہ وہی زمین، جو خون سے بچائی گئی، اب عدل سے تقسیم کی جائے شریعت، حکمت، اور روحانی بصیرت کے مطابق۔
قبیلوں کو زمین کی تقسیم
رب تعالیٰ نے حضرت یشوع بن نونؑ اور حضرت الیعزرؑ کو حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کے تمام قبیلوں کو قرعہ اندازی کے ذریعے زمین بانٹ دیں۔ یہ تقسیم نہ کسی جغرافیائی ترجیح پر تھی، نہ سیاسی چالاکی پر بلکہ ہر قبیلے کو اُس کی نسل، تعداد، اور مقام کے مطابق میراث دی گئی۔
حضرت یشوعؑ نے خاندانی و قبائلی حقوق کو رب کی شریعت کی روشنی میں مکمل عدل کے ساتھ ادا کیا نہ کوئی محروم ہوا، نہ کوئی غالب رہا۔ یہ تقسیم رب تعالیٰ کی قدرت، امت کی ترتیب، اور قیادت کی شفافیت کا عملی منظر تھی۔
قیادت کا روشن نمونہ
حضرت یشوع بن نونؑ نے تقسیمِ زمین کو قیادت کا ادنیٰ فریضہ نہیں سمجھا، بلکہ اُسے ایک ربانی ذمہ داری کے طور پر ادا کیا۔
ہر قبیلے کو اس کی شناخت کے مطابق زمین ملی، حدود طے کی گئیں، اور شہروں کے نام رب العزت کی ہدایت کے مطابق متعین کیے گئے۔ جب بنی یوسفؑ نے شکایت کی کہ اُن کی زمین کم ہے، تو حضرت یشوع بن نونؑ نے فرمایا:
“اگر تم عظیم قوم ہو تو پہاڑی علاقے خود جا کر فتح کرو۔”
یہ جواب فقط رہنمائی نہ تھا، بلکہ ایک درس تھا کہ زمین صرف مطالبے سے نہیں، بلکہ ہمت اور ایمان سے حاصل کی جاتی ہے۔
لاویوں کی خصوصیت
تمام قبیلوں کو زمین دی گئی، مگر قبیلہ لاوی مستثنیٰ قرار پایا۔ رب تعالیٰ نے اُنہیں زمین نہ دی، کیونکہ اُن کی میراث زمین نہیں، بلکہ رب العالمین کی خدمات کا فریضہ تھا۔
لاویوں کو مختلف قبیلوں کے علاقوں میں چھوٹے چھوٹے شہر دیے گئے، جہاں وہ عبادت، تعلیمِ شریعت، اور قربانیوں کی نگرانی انجام دیں۔ یہ روحانی طبقہ رب تعالیٰ کے اُس وعدے کا استعارہ تھا کہ کچھ لوگ دنیا سے خالی ہو کر صرف آسمان سے وابستہ رہتے ہیں تاکہ زمین پر رب پاک کی حضوری برقرار رہے۔
شریعت کا سایہ، عدل کا چراغ
رب تعالیٰ نے حکم دیا کہ زمین میں پناہ کے شہر مقرر کیے جائیں، تاکہ کوئی نادانستہ قتل کرنے والا وہاں پناہ لے سکے، جب تک عدل اُس کے بارے میں فیصلہ نہ کرے۔ یہ حکم ہمیں سکھاتا ہے کہ زمین صرف رہنے کی جگہ نہیں، بلکہ انصاف، تحفظ، اور امن کی جگہ بھی ہونی چاہیے۔ حضرت یشوع بن نونؑ نے صرف زمین بانٹی نہیں، بلکہ اُسے عدل و روحانیت کے رنگوں سے مزین کیا۔
حضرت عبدالرحمٰن جامیؒ
ملک آنست کہ در دل بود از نورِ یقین
نی ز خاک و نی ز زر، نی ز تخت و نی ز زین
ترجمہ:
اصل سلطنت وہ ہے جو دل میں یقین کے نور سے ہو، نہ کہ مٹی، سونے، تخت یا ساز و سامان سے۔
تشریح:
حضرت یشوع بن نونؑ کی قیادت ہمیں سکھاتی ہے کہ اصل وراثت صرف زمین نہیں، بلکہ وہ روحانی نور ہے جو عدل، شریعت، اور رب کی رضا سے دل میں اترتا ہے۔ انہوں نے زمین تقسیم کی، مگر ساتھ ساتھ نورِ یقین، شریعت کی برکت، اور ربانی توازن بھی امت کے سینوں میں منتقل کیا۔
نتیجہ
حضرت یشوع بن نونؑ کی قیادت میں بنی اسرائیل نے صرف زمین پر قدم نہ رکھا، بلکہ اُسے رب کی رضا سے سنوارا۔ قبیلے اپنے اپنے مقامات پر بسائے گئے، لاوی قبیلے کو عبادت کے مراکز میں مامور ہوئی، اور شریعت کے سائے میں زمین ایک روحانی وراثت بن گئی۔
یہ وہ لمحہ تھا جب بنی اسرائیل قوم نے مصر کی رہائی کے بعد زمین پر اپنی جگہ پائی اور آسمان سے رب پاک کی رضا نازل ہوئی۔
اختتامیہ
یہ باب ہمیں سکھاتا ہے کہ جب زمین رب تعالیٰ کے حکم، شریعت کے اصول، اور قیادت کی ایمانداری سے تقسیم کی جائے، تو وہ زمین صرف جگہ نہیں رہتی، بلکہ برکت کا مقام بن جاتی ہے۔ لاویوں کی خدمت، پناہ کے شہروں کا نظام، اور قبیلوں کی تنظیم اس بات کا مظہر ہے کہ ایک امت کی کامیابی صرف میدان میں نہیں، بلکہ بعد کی ترتیب اور روحانی تدبیر میں بھی پنہاں ہے۔
سوال کا جواب دیں