وصالِ وفا: حضرت یعقوبؑ کی تدفین اور حضرت یوسفؑ کی وفاداری

جب وصیت نبی کے ہونٹوں سے لفظِ آخری کی صورت ادا ہو، تو وہ محض ہدایت نہیں بلکہ نسلوں کے لیے عہدِ امان بن جاتی ہے۔ حضرت یعقوبؑ، جن کی عمر مبارک کے ایام صبر و ہجرت میں بسر ہوئے، اب اپنے رب کی طرف کوچ کا پیغام لیے اپنے بیٹوں کے سامنے بیٹھے تھے۔ آپؑ نے فرمایا:

“میں بھی اپنے آباؤ اجداد کے جوارِ رحمت میں جا ملنے والا ہوں، پس میری التجا ہے کہ جب میری روح قفسِ عنصری سے پرواز کرے تو مجھے اس ارضِ مصر میں دفن نہ کرنا بلکہ اُس مقامِ برکت میں لے جانا جہاں میرے دادا حضرت ابراہیمؑ، دادی سارہؑ، والد حضرت اسحاقؑ، والدہ ربقہؑ اور میری زوجہ لیاہؑ دفن ہیں۔ وہی کنعان کا قبرستان جو ہم نے عفرون حتّی سے خریدا، میری آرام گاہ ہو۔”

یہ الفاظ اُس نبی کی وصیت تھے جس کا دل فرزندی یوسفؑ کی دید میں روشن اور رب کی رضا سے معمور تھا۔

پھر جب وصیت ادا ہوئی، حضرت یعقوبؑ نے سجدۂ تسلیم و شکر میں اپنی روح خالقِ ازل کے سپرد کر دی۔ حضرت یوسفؑ، جو محبت کا زندہ عنوان تھے، والد کے چہرے سے لپٹ کر زار زار روئے۔ خدمت و وفا کی عظیم روایت کو زندہ کرتے ہوئے، آپؑ نے شاہی اطباء کو بلایا اور والد گرامی کے جسدِ مبارک میں خوشبو بھرنے کا حکم فرمایا۔ چالیس دن اِسی عمل میں صرف ہوئے، اور اہلِ مصر نے ستر دن تک گریہ و ماتم میں حضرت یعقوبؑ کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔

جب ایامِ سوگ مکمل ہوئے، حضرت یوسفؑ نے فرعون سے اجازت طلب کی کہ اپنے والد کی وصیت کے مطابق اُنہیں کنعان کے قبرستان میں دفن کریں۔ فرعون نے نہایت ادب و احترام کے ساتھ اجازت مرحمت فرمائی:
“جاؤ، اور جس طرح تم سے تمہارے والد نے عہد لیا، اُسے پورا کرو۔”

پھر ایک جلیل القدر قافلہ، جس میں فرعون کے درباری، مصر کے مشائخ، حضرت یوسفؑ کے اہلِ خانہ، اور بنی اسرائیل کے تمام قریبی شریک تھے، کنعان کی طرف روانہ ہوا۔ صرف بچے، خواتین اور مویشی وادئ طوملات میں قیام پذیر رہے۔

جب قافلہ کنعان پہنچا، حضرت یعقوبؑ کے بیٹوں نے بالکل اُسی طرح تدفین کی جیسا اُنہوں نے وصیت میں سُنا تھا۔ حضرت یعقوبؑ کو اس کھیت میں سپردِ خاک کیا گیا جسے حضرت ابراہیمؑ نے عفرون حتّی سے خریدا تھا۔

اس کے بعد حضرت یوسفؑ، اپنے بھائیوں اور شریکِ سفر تمام افراد کے ساتھ، ایک باوقار اور روحانی سکون کے ساتھ واپس مصر تشریف لے آئے۔


مولانا رومیؒ

آخری دیدار را فرزندی‌اش کردہ تمام
بر لبِ جان، شکر گفت و رفت جانب سلام

تشریح: رومیؒ فرماتے ہیں: “نبی کی آخری گھڑی میں، جب بیٹا دیدار کو حاضر ہو، تو موت بھی سلام بن جاتی ہے، اور زبان شکر سے روشن ہو جاتی ہے۔” حضرت یعقوبؑ کا وصال اسی شان سے ہوا یوسفؑ کے سینے سے لگ کر، رب کے حضور سجدہ شکر ادا کرتے ہوئے۔


نتائج:

  1. نبی کی وصیت، صرف دفن کا راستہ نہیں بلکہ نسل کی عزت، وفا اور امانت کا آئینہ ہوتی ہے۔
  2. نیک اولاد، والدین کی آخری خواہش کو عبادت کی طرح ادا کرتی ہے، اور یہی اصل نجات کی علامت ہے۔
  3. نبی کی تدفین ایک قومی واقعہ بن جاتی ہے، جس میں ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل سجدہ ریز ہوتا ہے۔
  4. حکمران اگر اللہ والوں کا ادب کرے، تو اُس کی سلطنت میں برکت اور عزت بڑھتی ہے۔

اختتامیہ:

یہ سبق ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ وفا کا سفر صرف زندگی تک محدود نہیں ہوتا۔ جب حضرت یوسفؑ نے والد کی وصیت پوری کی، تو وہ صرف خدمت نہیں بلکہ نبوی امانت کو ادا کر رہے تھے۔ یہ سبق اس بات کی روشن دلیل ہے کہ وفا، شریعت، ادب اور محبت کا مجموعہ ہے اور جب یہ سب کسی نبی کے سائے میں جمع ہو جائیں، تو وہ لمحہ تاریخ کا روشن چراغ بن جاتا ہے۔

درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔