قسم کھانے کے متعلق تعلیم
زبان انسان کی شخصیت کا آئینہ ہے، اور جو الفاظ دل کی سچائی سے خالی ہوں، وہ محض ہَوا کے جھونکے بن جاتے ہیں۔ شریعتِ الٰہی ہمیں نہ صرف سچ بولنے کا حکم دیتی ہے، بلکہ سچ کو دل کی نیت، عمل کی صداقت اور زبان کی وفا کے ساتھ جوڑتی ہے۔ قَسم کھانا بظاہر ایک مذہبی عمل لگتا ہے، لیکن جب یہ عادت بن جائے یا دھوکے کے ساتھ لی جائے، تو یہ نہ صرف کلام کو آلودہ کرتی ہے بلکہ روح کو بھی مائلِ زوال کرتی ہے۔ شریعت کا اصل تقاضا یہ ہے کہ انسان کا “ہاں” اور “نہیں” اتنے پختہ اور صاف ہوں کہ اُن کے لیے قَسم کی حاجت ہی باقی نہ رہے۔ یہی وہ تعلیم ہے جو سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے اپنی حکیمانہ نصیحتوں میں بیان فرمائیجس میں سچائی، وفاداری اور زبان کی پاکیزگی کو ایمان کا لازمی جزو قرار دیا گیا۔
قَسم کی حرمت اور صداقت کی روشنی
سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے لوگوں سے ارشاد فرمایا:
“اے اہلِ عبادت و اطاعت! تم نے بارہا اپنے عبادت گاہوں میں یہ آسمانی تعلیم سنی ہے کہ ربِّ کریم نے تمھارے بزرگوں کو یہ حکمت آمیز فرمان عطا فرمایا تھا کہ میرے مقدس نام کو جھوٹ اور فریب کی آلائش سے محفوظ رکھو، اور خبردار! میرے نام پر جھوٹی قسم کھانے سے باز رہو، کیونکہ جو میرے نام کی قسم کھاتا ہے وہ اپنی بات کو میرے حضور، عرشِ عدل کے سامنے پیش کرتا ہے، جہاں نہ نیت چھپتی ہے اور نہ ہی زبان کی لغزش پوشیدہ رہتی ہے۔
پس جسے اپنی زبان سے وعدہ کرنا ہو، اُسے چاہیے کہ اس کا دل وفا سے لبریز، نیت سچائی سے روشن، اور ارادہ دیانت سے مزین ہو، کیونکہ میرے نزدیک وہ وعدہ جو دل کی سچائی کے بغیر ہو، امانت میں خیانت کے مترادف ہے، اور وہ قول جو محض ظاہری ادا ہو، میزانِ عدل میں بے وزن ہے۔
لیکن میں، عیسیٰ، تم سے وہ بات کہتا ہوں جو حق اور حکمت پر مبنی ہے، اور وہ یہ کہ تم ہرگز قَسم نہ کھاؤ، نہ آسمان کی، کیونکہ وہ ربِ ذوالجلال کا بلند عرش ہے، نہ زمین کی، کہ وہ اس قادرِ مطلق کا بچھایا ہوا فرش ہے، نہ یروشلم کی، کیونکہ وہ ربِ جلیل کے برگزیدہ بندے حضرت داؤد کی بادشاہی کا مرکز ہے، اور نہ ہی اپنے سر کی قسم کھاؤ، کیونکہ تم اپنی طاقت سے نہ ایک بال کو سفید کر سکتے ہو نہ سیاہ، لہٰذا تمہارے لئے بہتر اور پسندیدہ یہی ہے کہ جب کلام کرو تو سچائی اور وضاحت کے ساتھ کرو، اگر کسی بات کے لئے رضامندی ہو تو خالص نیت سے ‘ہاں’ کہو، اور اگر انکار ہو تو صاف دلی سے ‘نہیں’ کہو، کیونکہ جو کچھ اس اعتدال سے آگے بڑھے، وہ شیطانی وسوسے، نفس کی کمزوری، اور سچائی سے انحراف کی علامت ہے۔
حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ
چو گفتی بلی، دیگرت حاجت نیست
به سوگند اگر راست باشی تو کیست؟
ترجمہ:
جب تو “ہاں” کہہ چکا، تو پھر کسی اور گواہی کی حاجت ہی نہیں
اگر تیرا دل سچا ہے، تو قَسم کھا کر تُو کیا ثابت کرے گا؟
تشریح:
مولانا رومیؒ کے اس شعر میں وہی نورانی حکمت جلوہ گر ہے جو سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات کا جوہر ہے۔ شریعتِ الٰہی میں قَسم محض زبانی وعدہ نہیں، بلکہ دل کی نیت، زبان کی صداقت اور عمل کی وفا کا پیمانہ ہے۔ کثرتِ قَسم دل کی کمزوری اور صداقت پر بے یقینی کی علامت ہے، جو شریعت کی روح سے دُوری کا اشعارہ ہے۔
جب نیت پاک ہو، زبان سچ پر قائم ہو، اور دل وفاداری سے روشن ہو، تو ’ہاں‘ اور ’نہیں‘ ہی کافی ہوتے ہیں۔ ظاہر کا فریب اور باطن کی بے راہ روی وہی دروازہ ہے جہاں سے شیطان راہ پاتا ہے۔
نتائج:
- قَسم کا استعمال صرف اس وقت روا ہے جب بات ضرورت کی حد تک پہنچ جائے اور دل صداقت سے معمور ہو، بصورتِ دیگر عادتاً قَسم کھانا یا فریب کی نیت سے اُس کا سہارا لینا شرعاً مذموم ہے۔
- جو شخص سچائی پر قائم ہو، اُس کا کلام خود گواہ ہوتا ہے؛ وہ قَسم کا محتاج نہیں ہوتا کیونکہ اُس کی زبان وفا کی آئینہ دار اور اُس کا باطن نورِ یقین سے لبریز ہوتا ہے۔
- زبان کی طہارت ایمان کی علامت ہے، اور وہ قول جو سچ، حلم، اور وقار سے مزین ہو، وہی ربِ کریم کے مقرب بندوں کی پہچان ہے۔
- قَسم کی کثرت دل کی بے یقینی، نفس کی کمزوری، اور وسوسۂ شیطانی کا غماز ہے، اور مومن کا شیوہ یہ ہے کہ وہ اپنی بات کو سچائی کے سہارے کہے، نہ کہ زبانی قسموں سے جمایا جائے۔
- سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے صداقت کو نہ صرف ایمان کا ستون قرار دیا بلکہ بغیر قَسم کے کہی گئی سچی بات کو دیانت، نیکی، اور روحانی بلندی کا معیار فرمایا۔
اختتامیہ:
سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی یہ نورانی تعلیم ہمیں صداقت کی وہ راہ دکھاتی ہے جو قَسم کے الفاظ سے نہیں بلکہ نیت کے خلوص اور کردار کی طہارت سے پہچانی جاتی ہے۔ یہ سبق ہمیں باور کراتا ہے کہ مومن کی اصل پہچان اُس کی زبان کی زیبائش سے نہیں، بلکہ اُس کے دل کی سچائی، ارادے کی پاکیزگی، اور نیت کی صفائی سے ہوتی ہے۔جب قول، خالص نیت کے ساتھ ادا ہو، اور انکار، وقار اور دیانت سے کیا جائے، تو انسان خود بخود اللہ رب العزت کی رضا اور قربت کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی حکمت آج بھی دلوں کو جھنجھوڑتی ہے اور روح کو متنبہ کرتی ہے: “قَسم وہی کھاتا ہے جو دل کے اطمینان سے محروم ہو، اور جو اپنے ربّ پر کامل یقین رکھتا ہے، وہ صدقِ دل سے سچ بولتا ہے اور خاموشی میں رضا کی خوشبو پاتا ہے۔”