سیدنا حضرت عیسیٰؑ کا تبلیغ شروع کرنا

روحِ کبریاء سے لیس ہو کر سیدنا حضرت عیسیٰؑ صوبۂ گلِیل کو روانہ ہوئے، تو وہاں گِرد و نواح میں آپؑ کی آمد کی خبر پھیل گئی۔ سیدنا حضرت عیسیٰؑ لوگوں کو عبادت خانوں میں دِینی تعلیم دیتے رہے۔ تمام لوگ آپؑ کی مدح کرنے لگے۔ پھر آپؑ ناصرۃ تشریف لے گئے جہاں آپؑ کا بچپن گزرا تھا۔ معمول کے مطابق سبت کے مبارک دن مقامی عبادت خانے میں بنی اسرائیل میں تشریف لے گئے۔ جب سیدنا حضرت عیسیٰؑ کلامُ اللہ کی تلاوت کرنے کے لئے کھڑے ہوئے، تو آپؑ نے اللہ تعالٰی کے نبی حضرت اِشعِیاؑ کے صحیفے میں سے وہ آیاتِ کریمہ تلاوت فرمائیں جن میں لکھا ہے: ”مَیں مولا کی روحِ اقدس سے معمور ہوں۔ اُس نے مجھے مقرر کر کے اِس حکم کے ساتھ بھیجا ہے کہ ’غریبوں کو جنت کی بشارت دو! قیدیوں کو رہائی، اندھوں کو بینائی اور مظلوموں کو آزادی ملنے کے دن آ گئے ہیں۔ وہ وقت آ پہنچا ہے کہ مولا کریم اپنے بندوں پر نظرِ کرم فرمائیں۔‘“ تلاوت کے بعد آپؑ نے صحیفۂ مبارک گول کر کے عبادت خانہ کے خادم کے سپرد کیا اور خود خطبہ دینے کے لئے تشریف‌ فرما ہوئے۔ تمام لوگ آپؑ کو غور سے دیکھنے لگے۔ آپؑ نے اُن سے فرمایا: ”مَیں نے جو کچھ تمھارے سامنے مسیحِ موعود کی آمد کے بارے میں تلاوت کیا، آج ہی پورا ہؤا۔“ آپؑ کے دہنِ مبارک سے دل موہ لینے والے الفاظ سن کر عبادت خانے میں موجود تمام لوگ تعجب کر کے کہنے لگے کہ ”کیا یہ حضرت یوسفؓ اور بی بی مریمؑ کا بیٹا نہیں؟“ سیدنا عیسٰیؑ نے فرمایا: ”تم ضرور میرے بارے میں یہ ضربُ المثل پیش کروگے کہ ’اے طبیب! اپنا علاج کر!‘ اور یہ بھی کہوگے کہ ’ہم نے سنا ہے کہ تم نے کَفرؔنحُوم میں کچھ کِیا ہے۔ وہ اپنے گاؤں میں بھی کرو!‘“ سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے اُن سے یہ بھی فرمایا: ”یقین جانو! نبی کی اپنے وطن میں کوئی توقیر نہیں ہوتی۔ سنو! حضرت الیاسؑ کے زمانے میں ساڑھے تین برس بارش نہ برسنے سے پورا ملک قحط کی لپیٹ میں آ گیا تھا۔ اُس ملک میں بہت سی بنی اسرائیلی بیوائیں بھی تھیں۔ مگر حضرت الیاسؑ کو اللہ تعالٰی نے اُن میں سے کسی کے پاس جان بچانے کے لئے نہ بھیجا۔ بھیجا، تو صَیدا کے علاقے صارؔپت شہر میں ایک مشرک بیوہ کے پاس! اللہ تعالٰی کے نبی حضرت اَلْیَشعؑ کے زمانے میں قومِ بنی اسرائیل میں جذام کے بہت سے مریض تھے، لیکن اُن میں سے کسی کو شفا نہ ملی۔ ملی، تو ایک مشرک نعمان شامی کو!“ جتنے لوگ عبادت خانے میں تھے، وہ آپؑ کی یہ بات سنتے ہی آپؑ کے مخالف ہو گئے۔ وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور آپؑ کو اُس شہر سے نکال کر پہاڑی کی اُس چوٹی پر لے گئے جہاں اُن کا شہر آباد تھا۔ مقصد یہ تھا کہ آپؑ کووہاں سے گرا دیں۔ لیکن آپؑ آرام سے اُن میں سے نکل کر اپنے راستے پر ہو لئے۔

درج ذیل سوالات کے جواب دیں۔