آوازِ الٰہی کی گونج، تبلیغ کا آغاز
جب کوئی نبی وقتِ مقررہ پر اپنی خاموشی سے نکلتا ہے اور دعوتِ حق کا پرچم بلند کرتا ہے، تو اُس کی زبان صرف علم کی نہیں، نور کی ترجمان بن جاتی ہے۔ تبلیغ دراصل اُس اندرونی الوہی تجربے کی ظاہری نمود ہے جو ربِ جلیل کے ساتھ خلوت میں پرورش پاتا ہے۔ وہی لمحہ، جب حق کا کلام انسانوں کے درونِ قلب کو بیدار کرنے کے لئے نبی کی زبان سے بہنے لگتا ہے، تبلیغ کہلاتا ہے۔ سیدنا حضرت عیسیٰؑ کا تبلیغ شروع کرنا محض واعظ یا خطبہ نہ تھا، بلکہ وہ الوہی ساعت تھی جب ربِ کریم کا وعدہ زبانِ مسیحؑ سے پورا ہوا، اور انجیل کی بشارتیں آسمانی صداقت میں تبدیل ہو گئیں۔ وہ لمحہ، جب ربِ کائنات کی روحِ کبریا نے مسیحؑ کو لبِ گویا عطا کیا اور خاموش پہاڑ، گونجتی بشارتوں میں تبدیل ہو گئے۔
دعوتِ حق کا آغاز
روحِ کبریا سے لیس ہو کر سیدنا حضرت عیسیٰؑ صوبۂ گلیل کی جانب روانہ ہوئے، تو گرد و نواح میں آپؑ کی آمد کی خبر پھیل گئی۔ سیدنا حضرت عیسیٰؑ لوگوں کو عبادت خانوں میں دینی تعلیم دیتے اور کلامُ الٰہی کی روحانی تفسیر بیان کرتے رہے۔ تمام لوگ آپؑ کی مدح و تعریف کرنے لگے۔
پھر سیدنا حضرت عیسیٰؑ ناصرۃ تشریف لے گئے، جہاں آپؑ کا بچپن گزرا تھا۔ سبت کے مبارک دن حسبِ معمول مقامی عبادت خانے میں تشریف فرما ہوئے۔ جب کلامُ اللہ کی تلاوت کے لئے آپؑ کھڑے ہوئے، تو حضرت اشعیاؑ کے صحیفۂ مبارک سے وہ آیات تلاوت فرمائیں: ”مَیں ربِ جلیل کی روحِ اقدس سے معمور ہوں۔ اُس نے مجھے مقرر کر کے اِس حکم کے ساتھ بھیجا ہے کہ غریبوں کو جنت کی بشارت دو، قیدیوں کو رہائی، اندھوں کو بینائی، اور مظلوموں کو آزادی دلاؤ، وہ وقت آ پہنچا ہے جب ربُّ العزت اپنے بندوں پر نظرِ کرم فرمائیں گے۔“
تلاوت کے بعد سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے صحیفہ خادم کو واپس دیا اور خطبہ دینے کے لیے بیٹھ گئے۔ عبادت خانہ میں موجود تمام آنکھیں آپؑ کی طرف لگ گئیں۔
تب سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا: آج یہ کلام، جو تم نے سنا، پورا ہوا یہی وہ لمحہ ہے جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔
لوگ متعجب ہو کر کہنے لگے: ”یہ کیونکر روا ہو سکتا ہے؟ ایسا وعدہ تو فقط کسی صاحبِ وحی نبی کے دستِ کرامت سے وفا پا سکتا ہے! یہ تو وہی خاموش مزاج فرزند ہے، جسے ہم نے ناصرہ کی گلیوں میں مریمؑ کی آغوش میں پروان چڑھتے دیکھا، ایک عام بشر، جس کی سادگی ہمارے شب و روز کی پہچان ہے۔
سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا: ”تم ضرور میرے بارے میں یہ ضرب المثل کہو گے کہ ’اے طبیب! اپنا علاج کر‘ اور یہ بھی کہو گے کہ جو کچھ ہم نے سنا کہ تم نے کفرنحوم میں کیا، وہ اپنے شہر میں بھی کرو۔ لیکن سنو نبی کی اپنے وطن میں کوئی توقیر نہیں ہوتی۔
پھر سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے حضرت الیاسؑ اور حضرت الیشعؑ کے واقعات بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے حضرت الیاسؑ کو بنی اسرائیل کی بیواؤں میں سے کسی کے پاس نہ بھیجا، بلکہ صیدا کے ایک مشرکہ بیوہ کے پاس۔ اور حضرت الیشعؑ کے زمانے میں بہت سے بنی اسرائیلی جذامی تھے، لیکن شفا پائی ایک مشرک نعمان شامی نے۔“
یہ سن کر عبادت خانہ میں موجود سب لوگ غضبناک ہو گئے۔ وہ سیدنا حضرت عیسیٰؑ کو عبادت خانہ سے نکال کر پہاڑ کی چوٹی تک لے گئے تاکہ آپؑ کو وہاں سے گرا دیں۔ لیکن سیدنا حضرت عیسیٰؑ آرام سے اُن کے درمیان سے گزر کر اپنی راہ پر روانہ ہو گئے۔
حضرت فخرالدین عراقیؒ
در دلِ شب نعرہ زد آوازِ دوست
عاشقِ صادق برفروخت از خروش
ترجمہ:
شب کی تاریکی میں دوست کی صدا گونجی،
اور سچے عاشق نے اُس صدا سے خود کو روشن کر دیا۔
تشریح:
یہ شعر اُس تبلیغی لمحے کی عکاسی کرتا ہے جب حضرت عیسیٰؑ نے عبادت خانے میں حضرت اشعیاؑ کی نبوت کو اپنی ذات پر پورا ہوتے ہوئے اعلان کیا۔ وہ نعرہ، جو شب کی خاموشی کو چیر دے، حقیقتاً وہی صدا ہے جو محبوبِ الٰہی کی روح سے نکلتی ہے۔ سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی تبلیغ صرف کلام نہ تھی، بلکہ روحِ کبریا کی گونج تھی، جس نے سچے عاشقوں کے دلوں کو روشن کر دیا اور اہلِ دنیا کو آزمائش میں ڈال دیا۔
نتائج
- تبلیغ کا اصل مقصد روحوں کو بیدار کرنا اور بندگانِ خدا تک نورِ الٰہی پہنچانا ہے، جیسا کہ حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا۔
- سیدنا عیسیٰؑ نے ابتدائی دنوں میں ہی یہ واضح کر دیا کہ حق کا پیغام صرف اپنوں کے لئے نہیں، بلکہ ہر دل کے لئے ہے، خواہ وہ مشرک ہو یا بیابانی ہو۔
- اہلِ وطن کی انکار پسندی ایک ابدی حقیقت ہے، اور نبی کی عظمت اکثر باہر کے لوگوں کو ہی نظر آتی ہے۔
- حضرت عیسیٰؑ کی تبلیغ نرمی سے نہیں بلکہ صداقت کے کڑوے پیغام سے شروع ہوئی، جس نے لوگوں کے دلوں کو چیر ڈالا۔
- نبی کا راستہ پھولوں سے بھرا نہیں ہوتا، بلکہ اُس پر پتھر بھی پڑتے ہیں مگر وہ پھر بھی اپنے راستے پر اطمینان سے چلتا رہتا ہے۔
اختتامیہ
تبلیغ وہ لمحہ ہے جب ایک نبی خلوت کی آگ میں پکا ہوا، اعلان کی روشنی لے کر نکلتا ہے۔ سیدنا حضرت عیسیٰؑ کا ابتدائی پیغام اِس بات کی شہادت ہے کہ روحانی سچائی، صرف خوش لفظی کا نام نہیں، بلکہ وہ ایک آئینہ ہے جس میں لوگ اپنا چہرہ دیکھ کر چونک جاتے ہیں۔ جب نبی اپنے ہی وطن میں رد کر دیا جاتا ہے، تو آسمان اُس کی گواہی بن جاتا ہے۔ سیدنا حضرت عیسیٰؑ کا پہلا پیغام، پہلی ٹھکراؤ، اور پہلا اعراض ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ تبلیغ کا آغاز قبولیت سے نہیں، بلکہ آزمائش، انکار اور صبر سے ہوتا ہے۔