سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی ولادت باسعادت

ہر صدی کچھ لمحے اپنے دامن میں چھپائے رکھتی ہے جو ظاہراً خاموش ہوتے ہیں مگر حقیقت میں تاریخ کی سانسوں میں ایک نئی روح پھونکنے والے ہوتے ہیں۔ وہ لمحہ جب تقدیر کی ساعتیں جھکتی ہیں، اور ایک نئی روشنی زمین پر طلوع ہوتی ہے۔ ایسی ہی ایک شب تھی، جب کائنات نے ایک مقدس ولادت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، ایک ایسا نور، جو نہ صرف ظلمتوں کو چیرنے آیا بلکہ بندگی کو نجات میں بدلنے کا اعلان لے کر آیا۔ اُس مبارک ساعت میں وقت جیسے تھم گیا، اور آسمان و زمین گویا اپنے پروردگار کے وعدے کی تکمیل پر سجدہ ریز ہو گئے۔ یہ ولادت کسی عام نفس کی نہ تھی، بلکہ اُس ہستی کی تھی جسے مولائے کائنات نے انسانیت کی نجات کا ذریعہ مقرر فرمایا تھا۔ آسمان سے بشارتیں اتریں، زمین پر چرواہوں کے قلوب میں نور اتر گیا، اور تقدیر نے ایک نیا باب رقم کر دیا۔

سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی ولادت گھڑی
اُن ہی دنوں شہنشاہِ روم اَوگُوستُس نے اپنی عظیم الشان سلطنتِ رومۃُ الکبریٰ میں مال و خراج کے نظم کے لیے مردم شماری کا فرمان جاری کیا۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی مردم شماری تھی جو شام کے حاکم کورنیوس کے دَور میں عمل میں آئی۔ اُس وقت ہر فرد کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے آبائی شہر جا کر اندراج کروائے۔

حضرت یوسفؓ نجار بھی اپنی منکوحہ بی بی مریمؑ کو ہمراہ لے کر ناصرہ سے یہودیہ کے شہر بیت لحم روانہ ہوئے۔ اُس وقت بی بی مریمؑ اپنے بطن میں وہ نورانی امانت لئے ہوئے تھیں جس کا وعدہ آسمانی صحیفوں میں نسل در نسل کیا گیا تھا اور جس کے ظہور کی تمنا انبیائے کرام علیہم السلام نے کی تھی۔ جب وہ بیت لحم پہنچے تو قیام کے لئے کوئی جگہ میسر نہ آ سکی۔ یوں، ایک سادہ اور فروتن مقام پر وہ ساعتِ مقدس آن پہنچی جب سیدنا حضرت عیسیٰؑ دنیا میں جلوہ گر ہوئے۔ وہ نور جو ربّ کی رضا، رحمت اور ہدایت کا مظہر تھا اپنی ولادت سے عالم کو منور کرنے آیا۔ انہیں پوتڑوں میں لپیٹ کر ناند میں رکھا گیا کیونکہ اُس علاقے کے مسافر خانے میں ان کے لیے کوئی جائے سکونت نہ تھی۔

اسی دوران قریب کے میدان میں کچھ چرواہے اپنے ریوڑوں کی نگہبانی کر رہے تھے کہ اچانک ربُّ العزت کا نور ان پر چمک اٹھا اور وہ اس نور کی ہیبت اور جلال سے خوف زدہ ہو گئے۔
پھر ایک نورانی فرشتہ ان کے سامنے ظاہر ہوا اور بولا کہ “خوف نہ کھاؤ میں تمہیں ایک عظیم خوشخبری سنا رہا ہوں جو تمام امت کے لئے رحمت، نجات اور سعادت کا پیغام ہے”۔ آج حضرت داؤدؑ کے شہر میں سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی ولادت ہوئی ہے جو ربِّ کائنات کی طرف سے نازل کردہ نجات دہندہ ہیں۔ تم اس کی نشانی یہ پاؤ گے کہ وہ بچہ پوتڑوں میں لپٹا ناند میں آرام کر رہا ہوگا۔

اسی لمحے آسمان نور سے بھر گیا اور فرشتوں کے لشکر نے ظاہر ہو کر حمد و ثناء کی صدائیں بلند کیں۔
وہ کہہ رہے تھے کہ عرشِ بریں پر اللہ کی تمجید ہو اور زمین پر ان لوگوں کے لیے سلامتی ہو جن سے ربّ تعالیٰ راضی ہے۔

جب فرشتے اپنے مقام کی طرف لوٹ گئے تو چرواہوں نے آپس میں کہا: “آؤ بیت لحم چلیں تاکہ اس نجات دہندہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں جس کی بشارت ہمیں ربّ کے فرستادے نے دی ہے۔”

پس وہ جلدی روانہ ہوئے اور جا کر بی بی مریمؑ اور حضرت یوسفؓ کو دیکھا اور ان کے ساتھ سیدنا حضرت عیسیٰؑ کو ناند میں آرام کرتا پایا۔ چرواہوں نے وہ تمام ماجرا سنایا جو اُن پر ظاہر ہوا تھا۔ یہ سن کر سب لوگ حیرت میں ڈوب گئے اور بی بی مریمؑ ان تمام باتوں پر اپنے دل میں غور کرتی رہیں۔

چرواہے خوشی اور شکر کے جذبات سے لبریز، اللہ کی ثناء کرتے اور تسبیح بیان کرتے واپس چلے گئے کیونکہ ان کی آنکھوں نے وہ نورِ ہدایت دیکھ لیا تھا جس کی خوشخبری سنائی گئی تھی۔


حکیم سنائیؒ
آمدِ او نُور شد در خانۂ فقر و نیاز
در دلِ شب، لامکاں را کرد در عالم نماز

ترجمہ:
اُس کی آمد سے فقر و نیاز کے گھر روشن ہو گئے۔
رات کی تاریکی میں اُس نے لامکانی کو زمین پر سجدہ کروا دیا

تشریح:
یہ شعر سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی ولادتِ مبارکہ کی روحانی تاثیر کو بیان کرتا ہے۔ فقر و سادگی میں پیدا ہونے والے نجات دہندہ نے نہ صرف زمین کو روشنی عطا کی بلکہ آسمانی عظمت کو خاکی دلوں میں اُتار دیا۔ وہ مقدس ساعت، جس میں کوئی تاج و تخت نہ تھا، مگر اس نور کی شان ایسی تھی کہ خود آسمان جھک آیا۔ “لامکاں را کرد در عالم نماز” کا مفہوم یہ ہے کہ اُس کی آمد نے لامحدود، ازلی و ابدی ربّ کی حضوری کو محسوس کرنے کا لمحہ پیدا کر دیا۔


نتائج

  1. ربّ کی قدرت: اللہ تعالیٰ کا نور کسی محل یا قصر میں نہیں بلکہ فقر، سادگی اور عاجزی میں ظاہر ہوتا ہے۔
  2. بشارت کی عظمت: فرشتوں کی طرف سے کی گئی بشارت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ آسمانی وعدے ہمیشہ پورے ہوتے ہیں۔
  3. چرواہوں کی بصیرت: سادہ چرواہوں کا انتخاب بتاتا ہے کہ روحانی حقائق کو جاننے کے لئے دل کا خالص ہونا شرط ہے۔
  4. بی بی مریمؑ کا تدبر: وہ ہر بات کو دل میں محفوظ رکھتی ہیں، ہمیں صبر اور غور و فکر کا سبق ملتا ہے۔
  5. سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی ولادت: یہ محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ انسانیت کے لئے نجات، روشنی اور رب تعالیٰ کی محبت کا اعلان ہے۔
  6. رب کی رضا: جن سے وہ راضی ہے” یہ پیغام ہمیں ترغیب دیتا ہے کہ ہم بھی اُس رضا کے مستحق بننے کی کوشش کریں۔

اختتامیہ

یہ واقعہ فقط ایک سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی ولادت نہیں بلکہ ایک آسمانی حقیقت کا زمین پر ظہور ہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب آسمان نے زمین سے ہمکلامی کی، جب چرواہوں جیسے سادہ دلوں کو رب تعالیٰ کے فرشتے نے اپنا پیغام دیا، اور جب سادگی کی ناند میں ایسا نور رکھا گیا جو نسلِ انسان کو اندھیروں سے نکال کر ابدی روشنی کی طرف لے جائے گا۔
یہ وہ جلوہ ہے جو کسی نسل یا قوم سے خاص نہیں، بلکہ ہر اُس دل کے لئے ہے جو عاجزی، طلب، اور صدق نیت سے اپنے خالق کو چاہتا ہے۔ سیدنا حضرت عیسیٰ کی آمد ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہدایت قصر و تخت میں نہیں، بلکہ اُن دلوں میں ہوتی ہے جو اپنی کمزوریوں کے ساتھ رب تعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں۔
ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنی زندگیوں میں وہی فروتنی، وہی طلب، اور وہی یقین پیدا کریں جو اُن چرواہوں کے دل میں تھا جنہوں نے سب سے پہلے نجات دہندہ کو پہچانا۔