ضیافت

سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا  کہ سلطنتِ الٰہیہ کی ایک مثال سنو! ایک بادشاہ تھا۔ اُس نے اپنے بیٹے کی شادی پر اپنے ملازمین کو اُن مدعوئین کی طرف بھیجا کہ ’شادی میں شرکت کرنے آ جائیے!‘، مگر اُنھوں نے معذرت کر لی۔ بادشاہ نے پھر اَور ملازمین کو اُن کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ ’دیکھو! مَیں نے تمہارے لئے موٹے تازے بَیل اور پلے ہوئے بچھڑے ذبح کروائے ہیں۔ سب کچھ تیار ہے۔ بس شادی کے جشن میں آنے کی کرو!‘ اِس کے باوجود اُنھوں نے کان تک نہ دھرے۔ ایک اپنے کھیت کی طرف چل دیا، ایک اپنے کاروبار کی طرف۔ باقی مدعوئین نے بادشاہ کے ملازمین کو پکڑ کر پِیٹا۔ یہاں تک کہ کچھ کو مار بھی ڈالا! بادشاہ یہ سن کر آگ بگولا ہو گیا۔ پس بادشاہ نے اپنا لشکر بھیج کر اُن قاتلوں کا صفایا کر دیا اور اُن کا شہر جلا کر راکھ کر ڈالا۔ پھر بادشاہ اپنے ملازمین سے کہنے لگا: شادی کی ضیافت تو تیار ہے، مگر جن لوگوں کو دعوت دی گئی تھی وہ تو اِس لائق نہیں نکلے۔ اچھا! اب تم ایسا کرو! شہر کے چوراہوں پر جا کر دیکھو! جو شخص بھی ملے، اُسے دعوتِ ولیمہ دو!‘ ملازمین حکم کی تعمیل میں چلے گئے۔ وہاں اچھے برے ہر شخص کو جمع کر کے دعوت میں لے آئے۔ یوں شادی کی جگہ مہمانوں سے بھر گئی۔ ”جب بادشاہ  مہمانوں سے ملنے کے لئے آیا، تو اُس کی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جو شادی کے مہیا کردہ لباس میں نہیں تھا۔ بادشاہ اُس سے کہنے لگا: ’میاں! تم شادی کے لباس کے بغیر یہاں کیسے آ گئے؟‘ اُس سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ بادشاہ نے ملازمین سے کہا: ’اِس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر باہر دُور قید خانے میں ڈال دو! وہاں یہ روتا پِیٹتا دردناک عذاب میں رہےگا۔

پھر سیدنا عیسٰیؑ نے اِس حکایت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے بہت سے لوگوں کو اپنے پاس آنے کی دعوت دی ہے، مگر بہت کم لوگ ہیں جو اُس کی نظر میں مقبول ٹھہرتے ہیں۔“