فریب کے خلاف وفا، دعا کے ساتھ فتح، اور آسمان کی اطاعت

جب کوئی امت رب تعالیٰ کے وعدے پر چلتی ہے اور اُس کے نام پر زمین کو فتح کرتی ہے، تو اطراف کے دلوں میں خوف کے ساتھ فریب بھی جنم لیتا ہے۔ بنی اسرائیل کی مسلسل کامیابیوں نے کنعان کی اقوام کو لرزا دیا۔ کچھ نے جنگ کو چُنا، اور کچھ نے فریب کو۔ انہی میں گبعونی قوم تھی، جو جانتی تھی کہ رب تعالیٰ کی نصرت کے سامنے کسی تلوار کا دم نہیں چلتا چنانچہ انہوں نے چالاکی سے وہ کیا جو ہتھیار نہ کر سکے ایک فریب زدہ امن کا لباس پہنا، تاکہ وہ رب العزت کے لوگوں سے محفوظ ہو جائیں۔


فریب کا لباس، امن کی طلب

گبعونیوں نے پرانے کپڑے پہنے، پھٹے جوتے چُنے، اور سوکھا ہوا زادِ راہ ساتھ لیا۔
انہوں نے حضرت یشوع بن نونؑ کے سامنے آ کر کہا: “ہم دور ملک سے آئے ہیں، ہم سے عہدِ امن کرو۔” بنی اسرائیل نے ان کی ظاہری حالت کو سچ مانا، مگر باطن کی حقیقت کو نہ پرکھا اور رب تعالیٰ سے مشورہ لیے بغیر عہد اُن سے کر لیا۔
جب بعد میں بنی اسرائیلیوں کو معلوم ہوا کہ وہ مقامی قوم ہے، تب بھی حضرت یشوع بن نونؑ نے رب پاک کے نام پر کئے گئے وعدے کو توڑنا گوارا نہ سمجھا، کیونکہ وفاداری کا وزن فتح سے بڑھ کر ہوتا ہے۔


خوف کی جنگ، عہد کا امتحان

جب پانچ بادشاہوں کو خبر ملی کہ گبعونیوں نے بنی اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کر لیا ہے، تو وہ غصے سے جمع ہوئے اور گبعون پر حملہ کر دیا۔
گبعونیوں نے حضرت یشوع بن نونؑ سے مدد طلب کی، عرض کیا:
“ہم تیرے بندے ہیں، ہمیں مت چھوڑنا۔”
حضرت یشوع بن نونؑ نے بغیر تاخیر رب العزت پر توکل کیا، اور لشکر کو روانہ کی کیونکہ جب عہد رب پاک کے نام پر ہو، تو اُس کی حفاظت بھی عبادت کا حصہ بن جاتی ہے۔


رات کی مسافت، صبح کی نصرت

حضرت یشوع بن نونؑ نے شب بھر کا سفر طے کیا، اور صبح ہوتے ہی دشمنوں پر حملہ کیا۔
رب تعالیٰ کا وعدہ اُن کے ساتھ تھا:
“اُن سے مت ڈر، میں اُنہیں تیرے ہاتھ میں دے رہا ہوں۔”
جنگ کے میدان میں رب پاک کی نصرت صرف تلوار کے سائے سے نہ اتری بلکہ آسمان سے بڑے بڑے اولے برسنے لگے، دشمن خوف زدہ ہو کر بھاگے، اور جنہیں تلوار نہ گرا سکی، اُنہیں رب کی قدرت نے گرا دیا۔ یہ جنگ عہد کی حفاظت، رب کی رضا، اور ایمان کی صداقت کا مظہر بنی۔


دعا کی اطاعت، وقت کا تعطل

جب فتح مکمل نہ ہوئی اور دن ڈھلنے لگا، تو حضرت یشوع بن نونؑ نے رب تعالیٰ سے دعا کی:
“اے سورج! گبعون پر تھم جا، اور اے چاند! وادیِ ایالون پر ٹھہر جا۔”
اور قدرت نے اُس آواز کو سن لیا۔ سورج رُک گیا، چاند تھم گیا، اور دن طویل ہو گیا تاکہ رب العزت کے بندے دشمنوں پر مکمل فتح پا سکیں۔ یہ فتح زمین کی نہیں، آسمان کی اطاعت تھی۔ ایک دعا نے فلک کے نظام کو روکا، کیونکہ وہ دعا رب العالمین کی رضا سے نکلی تھی۔


آسمان جھک گیا، بادشاہ گر گئے

جنگ مکمل ہوئی، پانچوں بادشاہوں کو غار میں قید کیا گیا، اور رب العزت کے حکم سے اُنہیں عبرت کا نشان بنا کر قتل کیا گیا۔ یہ وہ دن تھا جب رب تعالیٰ نے اپنی قدرت سے دکھایا کہ جو بندہ اس کے وعدے سے وفا کرتا ہے، اُس کے لئے آسمان کی گردش بھی مؤخر ہو جاتی ہے۔ حضرت یشوع بن نونؑ کی قیادت، بنی اسرائیل کا توکل، اور رب العالمین کی قدرت یہ سب ایک ہی صفحے پر جمع ہو گئے۔


شیخ حافظ شیرازیؒ

آنکه با یار بُوَد، دستِ فلک کوته بُوَد
آفتاب ار نتابد، ز دُعایش شرم بُوَد

ترجمہ:
جو رب العزت کے ساتھ ہو، اُس پر آسمان کی قدرت بھی عاجز ہو جاتی ہے؛ اگر سورج نہ بھی چمکے، تو اُس کی دعا سے شرما جاتا ہے۔

تشریح:
حضرت یشوع بن نونؑ کی دعا ایک صادق بندے کی پکار تھی جس نے رب پاک کی رضا کے لئے دن کو روک دیا۔ یہ حکمت ہمیں بتاتی ہے کہ دعائیں فقط الفاظ نہیں، اگر وہ وفا سے نکلی ہوں تو وقت کا دھارا بھی ان کے قدموں میں جھک جاتا ہے۔


نتیجہ
جنگی طاقت سے زیادہ اہم رب العالمین کا وعدہ، اور اُس وعدے کی وفاداری ہے۔ حضرت یشوع بن نونؑ نے دشمنوں کو شکست دی، مگر اُس سے بڑھ کر اپنے عہد کو نبھایا اور اس وفا کے بدلے رب پاک نے فلک کو بھی جھکا دیا۔ یہ فتح صرف جنگ کی نہ تھی، بلکہ وفا، دعا، اور رب پر یقین کی فتح تھی۔


اختتامیہ

یہ باب ہمیں وہ عظیم سبق دیتا ہے کہ جب امت صدقِ دل سے عہد کرے، اور دعا میں وفا ہو، تو وقت بھی تابع ہو جاتا ہے۔ حضرت یشوع بن نونؑ کی قیادت ہمیں بتاتی ہے کہ زمین کی سلطنتیں وہی پاتی ہیں، جو آسمان کے رب تعالیٰ کے حکم کے آگے سجدہ گزار ہوں۔ رب العزت کی قدرت اُس کے بندوں کی وفا میں ظاہر ہوتی ہے اور سورج کا رُک جانا محض معجزہ نہیں، بلکہ رب پاک کے ساتھ کیے گئے عہد کا ظہور تھا۔

سوال کا جواب دیں