مسحِ ثانی اور روحانی بادشاہت

جب زمین ظلمت میں لپٹ جائے، قیادت صرف رسم و رواج کی نمائندہ بن جائے اور دلوں سے خشیتِ الٰہی اٹھ جائے، تو ربّ العزت اپنے مقرب بندوں میں سے کسی کو چُن لیتا ہے جو قوم کے دلوں میں ایمان کا چراغ روشن کرتا ہے۔ حضرت داؤدؑ کا انتخاب، ربانی حکمت کا ایسا مظہر ہے جس میں ظاہر کی نگاہیں عاجز اور باطن کی بینائی بیدار ہو جاتی ہے۔ ایک کمسن چرواہا، جو چراگاہوں میں گمنام پھرتا تھا، اُس کے دل میں ربّ تعالیٰ نے وہ نور رکھا جس نے اُسے منصبِ نبوت و سلطنت عطا فرمایا۔

حضرت داؤدؑ کا انتخاب اور حضرت سموئیلؑ کی بصیرت

ربّ ذوالجلال نے حضرت سموئیلؑ کو وحی کے ذریعے حکم دیا کہ وہ بیت لحم جائیں اور یسّیؓ کے بیٹوں میں سے ایک کی دست گزاری کریں، جو ربّ العزت کی طرف سے منتخب بادشاہ ہوگا! حضرت سموئیلؑ نے ویسا ہی کیا جیسا رب کریم نے حکم دیا تھا۔
حضرت سموئیلؑ جب حضرت یسّیؓ کے گھر پہنچے تو حضرت سموئیلؑ نے یسّیؓ سے فرمایا:
“اپنے بیٹوں کو میرے سامنے پیش کریں۔”
حضرت یسّیؓ کے بیٹے ایک ایک کر کے حضرت سموئیلؑ کے سامنے پیش ہوئے۔ پہلا بیٹا بلند قدامت، جلال دار چہرہ، اور درباری انداز کے ساتھ سامنے پیش ہوا۔
حضرت سموئیلؑ کے دل میں خیال آیا:
“یقیناً رب پاک کا ممسوح یہی ہے!”
تب رب العزت کی وحی آئی:
“سموئیلؑ میرے بندے! اُس کی شکل دیکھ، نہ قدامت، کیونکہ میں نے اُسے رد کر دیا ہے؛ انسان ظاہری صورت دیکھتا ہے، پر ربّ دل کو دیکھتا ہے۔”
یوں دوسرے، تیسرے، اور پھر تمام بیٹے ایک ایک کر کے گزر گئے، مگر ربّ کی رضا خاموش رہی۔

حضرت سموئیلؑ نے حضرت یسّیؓ سے پوچھا: “کیا تیرے تمام بیٹے یہی ہیں؟” تب حضرت یسّیؓ نے عرض کیا: “ایک اور ہے جس کا نام داؤدؑ ہے، وہ سب سے چھوٹا، چرواہا، جو بھیڑ بکریاں چرا رہا ہے۔”

حضرت سموئیلؑ نے فرمایا: “داؤدؑ کو فوراً بلاؤ، جب تک وہ نہیں آئے گا ہم کھانا نہیں کھائیں گے۔”

جب حضرت داؤدؑ حاضر ہوئے، ان کی پیشانی پر حیاء، آنکھوں میں بندگی اور چہرے پر نور کی چمک تھی۔
حضرت سموئیلؑ پر رب تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوئی:

سموئیلؑ “یہی ہے میرا منتخب شدہ بندہ! اُسی کی دست گزاری کرو۔”


دل پر نگاہِ ربّ اور جسم کی نفی

ربّ العزت کے نزدیک عزت کا معیار چہرے کا جمال یا جسمانی قوت نہیں، بلکہ دل کا تقویٰ، نیت کا اخلاص اور بندگی کی حقیقت ہے۔ حضرت داؤدؑ جسمانی لحاظ سے نوعمر، قبیلے میں سب سے چھوٹے اور دنیاوی لحاظ سے کمزور تھے، مگر دل میں ایمان، لب پر ذکر، اور نگاہ میں خشیت تھی۔ اسی نورِ باطن نے اُنہیں ربّ العزت کے پسندیدہ بندوں میں شامل کر دیا۔


حضرت سموئیلؑ کی دست گزاری اور حضرت داؤدؑ کی روحانی ولایت

حضرت سموئیلؑ نے ربّ تعالیٰ کے حکم سے حضرت داؤدؑ کے سر پر تیل بہایا، جو کہ صرف ایک ظاہری رسم نہ تھی، بلکہ وہ روحانی دست گزاری تھی جو دل کے آئینہ کو نبیوں کی صف میں لے آئی۔ اسی لمحے ربّ العزت کی روح اُن پر نازل ہوئی اور اُن کا قلب، روح، فکر اور نیت سب الٰہی نور سے معمور ہو گئے۔
یہ تختِ سلطنت کا نقطۂ آغاز نہ تھا، بلکہ ولایت و قربِ الٰہی کی صبحِ صادق تھی۔


حضرت ساؤلؓ کا زوال اور حضرت داؤدؑ کا طلوع

حضرت ساؤلؑ، جنہیں پہلے ربّ العزت کی حضوری حاصل تھی، اب نافرمانی اور غرور کے سبب اس نور سے محروم ہو چکے تھے۔ ان کے دل میں اضطراب، قیادت میں تذبذب اور دعاؤں میں خشیت کا فقدان آ چکا تھا۔ ربّ العالمین نے اُن سے اپنا روحانی سایہ ہٹا لیا تھا۔
دوسری جانب حضرت داؤدؑ کی عمر اگرچہ کم تھی، مگر ان کے دل میں اطمینان، ذکر، اور وقارِ نبوت کی پہلی کرنیں اتر رہی تھیں۔ اُن کے وجود سے نور پھوٹ رہا تھا جو اعلان تھا کہ ربّ العزت نے ایک نئے روحانی بادشاہ کا انتخاب فرما لیا ہے۔


روحانی بادشاہت کی علامت

حضرت داؤدؑ کی بادشاہت شمشیر و قصر کی بنیاد پر نہیں، بلکہ ربّ العزت کی محبت، عدل، فقر، زبور اور عبادت پر قائم تھی۔ حضرت داؤدؑ نہ صرف نبی تھے، بلکہ امام، شاعر، عابد، اور مجاہد بھی۔ ان کے اقتدار کی پہچان صدق، عدل، گریۂ شب اور ذکرِ دائم تھا۔ حضرت داؤدؑ وہی بادشاہ تھے جو اپنی قوم پر حکم چلاتے تھے مگر اپنے ربّ کے سامنے غلاموں کی مانند روتے تھے۔


: مولانا رومیؒ

“دل بر دلبر سپردن کارِ ماست
زانکہ داؤد از دلش شد پادشاہ”

ترجمہ:
ہماری اصل ذمہ داری دل کو محبوب حقیقی کے سپرد کرنا ہے، کیونکہ حضرت داؤدؑ نے اپنے دل کو ربّ العزت کے حوالے کیا، اور اسی سے وہ بادشاہ بنے۔

تشریح:
مولانا رومیؒ اس شعر میں حضرت داؤدؑ کی روحانی بادشاہت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ان کی بادشاہی دل کی خلوص اور ربّ العالمین سے تعلق کی بنیاد پر تھی، نہ کہ دنیاوی طاقت پر تھی۔


نتائج:

  1. ربّ تعالیٰ قیادت دل کے اخلاص سے عطا فرماتا ہے، نہ کہ چہرے یا قبیلے سے فرماتا ہے۔
  2. حضرت داؤدؑ کی زندگی سکھاتی ہے کہ فقر، ذکر، عبادت، اور بندگی، بادشاہی کا اصل زینہ ہے۔
  3. جو بندہ چرواہے کی حالت میں ربّ العزت سے جُڑ جائے، وہی بادشاہوں پر فوقیت رکھتا ہے۔
  4. حضرت سموئیلؑ کی اطاعت اور ربّ العزت کے حکم پر کامل یقین، نبوت کا اصل حسن ہے۔
  5. روحانی بادشاہت، ظاہری سلطنت سے برتر اور باقی رہنے والی نعمت ہے۔

اختتامیہ:

یہ باب ہمیں سکھاتا ہے کہ بادشاہی اُن کے حصے میں آتی ہے جن کے دل ربّ العالمین کے حضور جھکے ہوں۔ حضرت داؤدؑ کی زندگی ایک آئینہ ہے جو ہر طالبِ حق کو بتاتی ہے کہ اگر اخلاص ہو، عاجزی ہو، ذکر ہو، اور نگاہ صرف ربّ ذوالجلال کی طرف ہو، تو گمنامی سے بھی ولایت نکلتی ہے اور چرواہے بھی نبی و سلطان بن جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسا دل عطا فرمائے جو حضرت داؤدؑ کے دل کی مانند، ربّ العزت کے نور سے لبریز ہو۔