مشرقی قبیلوں کا امتحان اور عہد کا تحفظ
جب اُمت کسی وعدہ شدہ مقام پر پہنچتی ہے، تو آزمائش ختم نہیں ہوتی بلکہ اُس کی صورت بدل جاتی ہے۔ بنی اسرائیل کو رب تعالیٰ کی طرف سے فتح عطا ہوئی، زمین تقسیم ہوئی، اور قبیلے اپنے اپنے حصے میں بسنے لگے۔ مگر مشرقی کنارے پر بسنے والے قبیلے رؤبین، جد، اور منسی کا آدھا قبیلہ جب واپس یردن پار اپنی زمین کو لوٹے، تو اُن کے ایک اقدام نے پوری قوم کو ایک فتنہ کی دہلیز پر لا کھڑا کیا۔
قربان گاہ کا قیام
رب تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے ایک ہی قربانی کا مرکز مقرر فرمایا تھا۔ مگر جب مشرقی قبیلوں نے یردن کے اُس پار ایک بڑی قربان گاہ تعمیر کی، تو بنی اسرائیل کے دیگر قبیلوں نے اُسے بغاوت، انحراف اور ممکنہ شرک کا پیش خیمہ سمجھا۔ وہ سمجھنے لگے کہ شاید یہ نئی عبادت، نئی شریعت، اور رب تعالیٰ کے عہد سے دوری کی علامت ہے اور یوں وہ مقام جو گواہی کے لیے بنایا گیا تھا، فہم کی کمی سے فتنہ بننے لگا۔
جنگ کا خطرہ، مگر ضبط و فہم کی رہنمائی
باقی قبائل نے جمع ہو کر جنگ کی تیاری کی مگر حضرت یشوع بن نونؑ اور سرداروں نے جلد بازی سے پرہیز کیا۔ انہوں نے پہلے سفیروں کا ایک حکیمانہ وفد روانہ کیا، تاکہ بات سنی جائے، نیت جانی جائے، اور حقائق پر مبنی فیصلہ کیا جائے۔ جب وفد نے مشرقی قبیلوں سے ملاقات کی، تو اُنہوں نے عاجزی اور وضاحت سے کہا:
“یہ قربان گاہ عبادت یا قربانی کے لیے نہیں، بلکہ ایک نشانِ وفاداری ہے تاکہ ہماری آئندہ نسلیں یاد رکھیں کہ ہم بھی رب تعالیٰ کے عہد میں شامل ہیں۔”
اختلاف سے وحدت تک
اس وضاحت نے فتنہ کو فہم میں بدل دیا، اور جنگ کے بادل چھٹ گئے۔ باقی بنی اسرائیل نے رب پاک کا شکر ادا کیا، اور ساری قوم نے اتحاد کی سانس لی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب اختلاف، جو خونریز جنگ بن سکتا تھا، صرف ایک وضاحت سے اتحاد اور رحمت کا ذریعہ بن گیا۔ حضرت یشوع بن نونؑ کی قیادت، شریعت کا سایہ، اور امت کی فکری پختگی نے اُمت کو تقسیم سے بچا کر وفا میں جوڑ دیا۔
حضرت سعدیؒ شیرازی
چو نیک آید از نیت و صدقِ دل
شود فتنے خاموش، بگردد گِل
ترجمہ:
جب نیت نیک ہو اور دل میں صدق ہو،
تو فتنہ خاموش ہو جاتا ہے اور گرمی ٹھنڈک میں بدلتی ہے۔
تشریح:
مشرقی قبیلوں کی نیت نے ثابت کیا کہ اگر دل میں اخلاص ہو، اور زبان میں وضاحت ہو، تو اختلاف بھی برکت میں بدل سکتا ہے۔
نتائج
حقیقی وحدت صرف زمین کی تقسیم سے نہیں، بلکہ عہد کی وفاداری اور نیت کی پاکیزگی سے قائم ہوتی ہے۔
غلط فہمیاں اُس وقت فتنے بنتی ہیں، جب ہم بات سننے کے بجائے حکم صادر کرنے لگتے ہیں۔
حکمت، صبر، اور مکالمہ اختلاف کو ختم کر کے دلوں کو جوڑنے کا سبب بن سکتے ہیں۔
امت کی قوت صرف جنگ جیتنے میں نہیں، بلکہ دلوں کو سنبھالنے، رشتوں کو سنوارنے، اور عہد کو بچانے میں ہوتی ہے۔
اختتامیہ
یہ باب ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اختلاف ہمیشہ تباہی کا دروازہ نہیں ہوتا بلکہ وہ موقع بھی ہو سکتا ہے وحدت کو گہرا کرنے کا، اگر ہم اس کا سامنا اخلاص، وضاحت اور حسنِ ظن سے کریں۔ حضرت یشوع بن نونؑ کی قیادت میں ہمیں یہ سبق ملا کہ امت کی بقا صرف سرحدوں سے نہیں، بلکہ دلوں کی وحدت سے ہوتی ہے۔ جب ہم رب العزت کے عہد کو اپنی ترجیح بنائیں، اور نیت کو صاف رکھیں، تو قربان گاہ اختلاف کا سبب نہیں بنتی بلکہ عہد کی گواہی بن جاتی ہے۔
سوال کا جواب دیں