معاف کرنا

سیدنا حضرت عیسیٰ ؑ نے ایک مثال پیش کرتے ہوئے فرمایا! سلطنتِ الٰہیہ کی ایک مثال سنو! ایک بادشاہ تھا۔ اُس نے اپنے وزیروں مشیروں کو حکم دیا: ’لین دین کا حساب دو!‘ اُنھوں نے حساب دیتے وقت ایک درباری کو پیش کیا جسے کافی روپے پیسے روپے دینے تھے۔ اُس درباری کے پاس قرض چکانے کے لئے ایک پیسا بھی نہیں تھا۔ بادشاہ نے نوکروں کو حکم دیا: ’اِسے غلام کی حیثیت سے بیچ دو! اِسے بھی اور اِس کے بیوی بچوں کو بھی! اور بیچ دو اِس کا مال و اسباب بھی اور وصول کر لو قرض کی رقم اِس سے!‘ وہ درباری یہ سن کر بادشاہ کے قدموں میں گر کر مِنّت سماجت کرنے لگا: ’بادشاہ سلامت! رحم کیجئے! مہلت دیجئے! آپ کی پائی پائی ادا کر دوں‌ گا!‘ اُس درباری کی یہ حالتِ زار دیکھ کر بادشاہ کو رحم آ گیا۔ اُس نے اُس کا سارا قرض معاف کر کے اُسے چھوڑ دیا۔ ”جب وہ درباری شاہی دربار سے باہر نکلا، تو اُسے ایک درباری ساتھی مل گیا جسے اِس کے سَو دینار دینے تھے۔ یہ درباری اُس قرض‌دار ساتھی کا گلا دبا کر کہنے لگا: ’نکالو میرے پیسے!‘ مقروض بےچارہ اُس کے قدموں میں گر کر مِنّت سماجت کرنے لگا: ’کچھ مہلت تو دو! تمہارا سارا قرض چکا دوں‌گا۔‘ مگر اُس نے اُس کی ایک نہ سنی۔ کہنے لگا: ’جب تک تم ایک ایک پائی ادا نہیں کر دوگے، قید ہی میں رہوگے۔‘ اِس کے ساتھ ہی اُس نے اُسے جیل بھجوا دیا۔ ”جس وقت باقی درباریوں نے اُس کی یہ حرکت دیکھی، تو پریشان ہو گئے اور ساری بات اپنے مالک تک پہنچا دی۔ بادشاہ نے اُس درباری کو اُسی وقت بلوا کر کہا: ’لعنتی کہِیں کے! مَیں نے تیرا اِتنا بڑا قرض معاف کر دیا۔ اور وہ بھی صرف اِس وجہ سے کہ تُو نے میری مِنّت سماجت کی۔ بھلا! تجھے یہ نہیں چاہئے تھا کہ اپنے ساتھی پر اُسی طرح ترس کھاتا جس طرح مَیں نے تجھ پر کھایا تھا؟‘ پھر بادشاہ کو جلال آ گیا۔ اُس نے اُس درباری کو کوڑے مارنے والوں کے حوالے کر دیا کہ ’جب تک یہ تمام قرض ادا نہ کر دے، قید ہی میں پڑا رہے!‘“ یہ حکایت بیان کرنے کے بعد سیدنا عیسٰیؑ نے فرمایا: ”اگر تم میں سے کسی ایک نے بھی اپنے بھائی کو دل سے معاف نہ کِیا، تو میرا پروردگار ربُّ العرش بھی تمہارے ساتھ ایسا ہی سلوک کرے گا۔