سبق 3۔ گفتگوہِ کوہِ طور

اب ہوا یوں کہ مزید خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو فرمایا! تم بنی اسرائیل سے کہنا کہ خدا تعالیٰ جس نے مجھے تمہاری طرف معبوث فرمایا وہ جو ہر وقت صادق القول ہے اور تمہارے آباؤ اجداد حضرت ابراہیم ؑ، حضرت اسحاق ؑ، حضرت یعقوب ؑ کا رب فرماتا ہے کہ تم میرے عہد کو پورا ہوتے دیکھو گئے تاکہ لوگ پشت در پشت مجھے صادق القول جانیں۔
خدا تعالیٰ نے مزید حضرت موسیٰ ؑ کو حکم دیا! میرے بندے موسیٰ ؑ اب تم جاؤ بنی اسرائیل کے سرداروں کو جمع کرکے انہیں یہ پیغام پہنچاؤ کہ تمہارے آباؤ اجداد کے رب تبارک وتعالیٰ کی تجلّی مجھ پر ظاہر ہوئی اور اُس نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے! میرے بندے موسیٰ ؑ انہیں مزید یہ بتانا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تم سب مظلوموں کا حال دیکھ چکا ہوں اور جانتا ہوں کہ مصر میں تم پر کیا بیت رہی ہے اب میں رب تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں مصریوں کی بیگار سے رہائی دلوا کر اُس سر زمین پر لے جاؤں گا جہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔
خدا تعالیٰ نے مزید حضرت موسیٰ ؑ کو فرمایا جب بنی اسرائیل کے سب لوگ تمہاری دعوت پر لبیک کہیں تو تم انہیں لے کر فرعون کے پاس جانا اور اس سے کہنا! ہماری قوم بنی اسرائیل سے دائمی عہد کرنے والے رب کی طرف سے ہمارے لئے بلاوا آیا ہے لہذا ہمیں اجازت دیجئے کہ صحرا میں چند دن سفر کریں اور وہاں اپنے رب کے حضور قربانیاں پیش کریں۔
تاہم فرعون سرکش ہے وہ تمہیں اس وقت اجازت نہ دے گا جب تک میں اسے مجبور نہ کردوں۔ چناچہ میں رب اپنی قدرت بڑھا کر پورے مصر میں ایسے معجزات دکھاؤں گا جن سے خوفزدہ ہوکر فرعون تمہیں جانے کی اجازت دے گا یوں میں نہ صرف فرعون بلکہ پورے مصریوں کے دل پھیر دوں گا کہ تم لوگ وہاں سے خالی ہاتھ نہ نکلو تمہاری عورتیں مصری عورتوں سے سونے چاندی کے زیورات اور قیمتی کپڑے مانگ لیں گی وہ ان سے لیکر اپنے بچوں کو پہنا دینا یوں تم مصریوں کی غلامی سے نکلتے ہوئے ان کا مال و دولت سمیٹ لو گے۔
حضرت موسیٰ ؑ نے ہچکچاتے ہوئے بارگاہِ الٰہی میں جواب دیا! مولا اگر بنی اسرائیلی مجھ پر اعتماد نہ کریں بلکہ میری بات نہ سنیں اور کہہ دیں کہ تجلیء الٰہی تم پر ظاہر نہیں ہوئی تو؟
تب خدا تعالیٰ نے فرمایا! اے میرے بندے تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟
حضرت موسیٰ ؑ نے جواب دیا! عصا
باری تعالیٰ سے حکم ہوا! موسیٰ ؑ اس عصا کو زمین پر پھینک دو حضرت موسیٰ ؑ جیسے ہی عصا زمین پر پھینکا تو وہ عصا جیتا جاگتا سانپ بن گیا حضرت موسیٰ ؑ سانپ کو دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے۔
تب خدا تعالیٰ نے فرمایا! موسیٰ ؑ! اب اس سانپ کو دُم کی طرف سے پکڑ لو
حضرت موسیٰ ؑ نے جیسے ہی سانپ کی دُم کو پکڑا تو وہ سانپ حضرت موسیٰ ؑ کے ہاتھ میں دوباره عصا بن گیا
خدا تعالیٰ نے مزید حضرت موسیٰ ؑسے فرمایا! میرے بندے موسیٰ ؑ بنی اسرائیل کے پاس یہی نشان لے کر جاؤ تو وہ یقین کر لیں گے کہ تم پر اُن کے آباؤ اجداد کے رب کی تجلیء الٰہی ظاہر ہوئی ہے۔
پھر باری تعالیٰ سے حکم ہوا! موسیٰ ؑ اب زرا اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو! حضرت موسیٰ ؑ نے حکمِ الٰہی کی تعمیل میں ایسا ہی کیا۔ جب حضرت موسیٰ ؑ نے اپنا ہاتھ دوباره باہر نکالا تو ہاتھ کی جلد خشک ہو کر پپڑیوں کی شکل اختیار کر گئی!
تب خدا تعالیٰ نے حکم دیا! موسیٰ! اب اپنا ہاتھ دوباره اپنے گریبان میں ڈالو! حضرت موسیٰ ؑ نے پھر ویسا ہی کیا جب حضرت موسیٰ نے دوباره اپنا ہاتھ باہر نکالا تو آپ ؑ نے دیکھا کہ وہ ہاتھ باقی جسم کی طرح ٹھیک ہوگیا ہے۔
خدا تعالیٰ نے فرمایا! میرے بندے موسیٰ ؑ اگر بنی اسرائیل تم پر اعتماد نہ کرے اور تمہارے پہلے نشان کو جھٹلا دیں تو وہ دوسرے نشان پر ضرور ایمان لائے گئے۔ اگر بنی اسرائیل ان کے بعد بھی تمہاری بات نہ سنیں تو پھر یوں کرنا کہ دریائے نیل میں سے تھوڑا پانی لے کر زمین پر پھینک دینا تمہارے پھینکتے ہی وہ پانی خون بن جائے گا۔
حضرت موسیٰ نے پھر عرض کیا! وہ تو ٹھیک ہے مولا! لیکن میں فصیح البیان نہیں ہوں اور میری گفتگو میں روانی نہیں ہے میری زبان میں بچپن ہی سے گرہ پڑی ہوئی ہے۔
خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ سے پوچھا! یہ بتاؤ موسیٰ ؑ! انسان کو حیوانِ ناطق کس نے بنایا؟ کون انسانوں کو اس قابل بناتا ہے کہ بولیں یا نہ بولیں، سنیں یا نہ سنیں، دیکھیں یا نہ دیکھیں؟ کیا میں ” اَلْخَالِق” یہ سب نہیں کرتا؟
خدا تعالیٰ نے فرمایا موسیٰ ؑ! اب تم جاؤ! میں تمہاری زبان کا زمہ لیتا ہوں اور میں تمہیں خود سکھاؤں گا کہ کیا کہنا ہے کیا نہیں۔
حضرت موسیٰ ؑ نے ایک دفعہ پھر ہچکچاتے ہوئے خدا تعالیٰ کو عرض کیا! اے میرے مولا! کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ اس کام کے لئے کسی اور کو بھیج دیں؟
اگرچہ خدا تعالیٰ یہ سن کر جلال میں آگیا لیکن فرمایا!
ٹھیک ہے موسیٰ ؑ! تمہارے اپنے بھائی ہارون ؑ کے متعلق کیا خیال ہے؟ وہ خوب فصیح الکلام ہے اور اسی طرف چلا آرہا ہے۔ وہ تم سے مل کر یقیناً تمہاری مدد کے لئے خوشی سے آمادہ ہو جائے گا۔ جب تم مصر پہنچوں تو حضرت ہارون ؑ کو بتاؤ کہ کیا کہنا ہے۔ تمہارا بھائی ہارون ؑ بنی اسرائیلی لوگوں کے سامنے تمہارا ترجمان ہوگا گویا وہ تمہارا خلیفہ اور تم اس کے پیشرو۔ مصر میں نشان دکھانے کے لئے یہ عصا استعمال کرنا بے شک! میں تمہارا حامی و ناصر ہوں اور تم دونوں کی زبان کا زمہ لیتا ہوں۔
آخر میں خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو فرمایا! موسیٰ ؑ! مصر جانے سے بالکل نہ گھبرانا کیونکہ جو لوگ تمہاری کی جان کے درپے تھے وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
اس کے بعد حضرت موسیٰ ؑ اپنے گھر لوٹ گئے اور اپنے خسر حضرت یترو ؓ سے درخواست کی اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں مصر جاکر اپنے اہلِ خانہ کو ملنا چاہتا ہوں پتہ نہیں وہ لوگ حیات بھی ہیں یا نہیں
حضرت یترو ؓ نے جواب دیا! کیوں نہیں موسیٰ ؑ! ضرور جاؤ میری دعائیں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہیں۔

درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔