حضرت موسیٰؑ کی بعثت، معجزات اور حضرت ہارونؑ کی معاونت
جب آسمانِ تقدیر پر نبوت کا چراغ روشن ہونے کو ہو، اور زمین پر ظلم و بیگار کی تاریکی پھیل چکی ہو، تب قدرت کا نظام کسی پردہ نشین کو میدانِ حق کے لیے بلند فرماتا ہے۔ حضرت موسیٰؑ، جنہیں کوہِ طور پر خطابِ ربانی کی عظمت عطا ہوئی، اب عہدِ رسالت کی طرف بڑھائے جا رہے تھے۔
حق تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو حکم دیا:
“اے میرے بندے! بنی اسرائیل سے کہو، کہ میں وہی ربّ ہوں جس نے تمہارے آباؤ اجداد، حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسحاقؑ، اور حضرت یعقوبؑ سے وعدہ کیا تھا کہ میں تمہیں نجات عطا کروں گا۔ اور وہ ساعت آ پہنچی ہے جب میرا وعدہ صداقت میں ڈھلنے والا ہے، تاکہ نسلیں جانیں کہ میرا کلام ہر عہد میں سچا رہا ہے۔”
پھر حکمِ الٰہی ہوا:
“میرے پیغام کو سردارانِ بنی اسرائیل تک پہنچاؤ اور انہیں کہو کہ تمہاری آہیں میرے عرش تک پہنچی ہیں، میں نے تمہاری بیگار دیکھی، تمہارے آنسوؤں کی بوچھاڑ سنی۔ اب میں تمہیں اُن سرزمینوں کی طرف لے جاؤں گا جہاں شہد و دودھ کی نہریں رواں ہیں۔”
ربّ نے فرمایا:
“جب وہ تمہارے ساتھ ہو جائیں، تو فرعون کے حضور جاؤ اور اس سے کہو: ہم اپنے ربّ کے حکم سے نکلنا چاہتے ہیں تاکہ صحرا میں چند دن اپنے ربّ کی بارگاہ میں قربانی پیش کریں۔ وہ تمہیں روکے گا، مگر میں اپنی قدرت کے نشان اُس پر نازل کروں گا۔”
“مصری عورتوں سے تمہاری عورتیں زیورات مانگیں گی، اور یوں تم مصریوں کا مال لے کر اُن کی غلامی سے نکل جاؤ گے۔”
حضرت موسیٰؑ نے عرض کیا:
“مولا! اگر وہ لوگ کہیں کہ تو ہم پر کس دلیل سے آیا ہے؟ اگر وہ میری بات کا انکار کریں تو؟”
ربّ نے فرمایا:
“تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟”
حضرت موسیٰؑ نے عرض کیا: “عصا!”
فرمایا: “اُسے زمین پر ڈال دو!”
جب زمین پر ڈالا تو وہ زندہ اژدہا بن گیا۔ موسیٰؑ خوف سے پیچھے ہٹے۔
فرمایا: “اسے دُم سے پکڑ لو!”
پکڑتے ہی وہ عصا بن گیا۔
پھر فرمایا:
“اپنا ہاتھ گریبان میں ڈالو!”
جب باہر نکالا، تو وہ نور سے سفید ہو گیا۔
دوبارہ داخل کیا، تو واپس اصل حالت میں آ گیا۔
ربّ نے فرمایا:
“یہ نشان لے کر جاؤ، اگر وہ نہ مانیں تو نیل کا پانی زمین پر گرا دینا، وہ خون بن جائے گا۔”
حضرت موسیٰؑ نے عرض کیا:
“مولا! میں فصیح الکلام نہیں، زبان میں گرہ ہے۔”
ربّ نے پوچھا:
“بولنے والا، سننے والا، دیکھنے والا کون بناتا ہے؟ کیا میں ‘الخالِق’ نہیں؟”
پھر فرمایا:
“ڈرو مت! تم کہو گے، میں تمہیں سکھاؤں گا کہ کیا کہنا ہے۔”
حضرت موسیٰؑ نے پھر عرض کیا:
“اے میرے ربّ! اگر آپ کسی اور کو یہ ذمہ داری دے دیں؟”
ربّ نے فرمایا:
“تمہارے بھائی ہارونؑ تمہارے لیے خوشی سے معاون بنے گا۔ میں تم دونوں کی زبان کا ضامن ہوں۔”
پھر ربّ نے فرمایا:
“جاؤ، اور اپنے خسر حضرت یتروؓ سے اجازت لو۔”
حضرت موسیٰؑ نے عرض کیا:
“اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں مصر جاکر اپنے اہلِ خانہ کی خبر لاؤں۔”
حضرت یتروؓ نے فرمایا:
“جاؤ، اے موسیٰؑ! میری دعائیں تمہارے ہمراہ ہیں۔”
حضرت جامیؒ
سخن گفتن از یار وقتی رواست
که از دل برآید، نه از گفتوباست
تشریح:
حضرت جامیؒ فرماتے ہیں کہ جب کلام دل سے نکلے، تب ہی وہ محبوبِ حقیقی تک پہنچتا ہے۔ حضرت موسیٰؑ کا ہر جملہ، ہر معذرت، ہر التجا دراصل ایک طالبِ حق کی صداقتِ قلب کی دلیل تھی، اور ربّ نے اُسے قبول فرما لیا۔
نتائج:
- تجلیِ الٰہی دل کی زمین پر اس وقت اترتی ہے جب بندہ فنا کے مقام پر پہنچے۔
- عصا، ہاتھ اور پانی ان تین معجزات میں ربّ کی ربوبیت اور نبوت کا استحقاق روشن ہوتا ہے۔
- سچ بولنے والا ربّ، ہمیشہ اپنے وعدے کی تکمیل کرتا ہے چاہے صدیاں گزر جائیں۔
- ربّ جب کسی کو چن لیتا ہے، تو اس کی کمزوریوں کو اپنی طاقت سے بھر دیتا ہے۔
اختتامیہ:
یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ نبوت کی راہ معجزات سے نہیں، یقین، تواضع اور ربّ پر اعتماد سے طے ہوتی ہے۔ حضرت موسیٰؑ کی ہچکچاہٹ ربّ کو ناراض نہ کر سکی کیونکہ وہ ہچکچاہٹ اخلاص کی تھی۔ اور پھر وہی ربّ جو دلوں کے بھید جانتا ہے، اُسے منصبِ رسالت، معجزہ، معاونت اور یقین کی قوت عطا فرماتا ہے۔
درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔