نسلِ موعود کی بشارت
جب آسمان سکوت کی چادر اوڑھے تھا اور فضا میں خامشی ایک نورانی راز کی مانند پھیلی ہوئی تھی، تب حضرت ابرام کے دل میں ایک رویائے صادقہ ابھری، جس میں کلامِ الٰہی کے موتی ٹپکنے لگے۔ یہ محض خواب نہ تھا، بلکہ وہ الہام تھا جو دل کی تہوں کو منور کرتا ہے اور بندے کو رب کی طرف کھینچ لاتا ہے۔ اُس شب، حضرت ابرام پر ندا وارد ہوئی: “دل تنگ نہ کرو، اے ابرام! میں المُنعِم ہوں — نعمت عطا کرنے والا، اور تیرا انعام بہت عظیم ہے۔”
حضرت ابرام نے دل کی گہرائیوں سے عرض کیا: “اے میرے رب! میں بے اولاد ہوں، میرے ہاں تو کوئی وارث ہی نہیں۔ جو کچھ میرے پاس ہے، وہ سب میرے غلام الیعزر دمشقی کو ہی منتقل ہوگا۔ کیا میرا وارث وہ ہوگا جو میرے صلب سے نہیں؟”
ربِ کریم کی طرف سے فرمان آیا: “ہرگز نہیں! تمہارا وارث وہ نہیں جو غلام ہے، بلکہ تمہارے ہی صلب سے پیدا ہونے والا تمہارا حقیقی وارث ہوگا۔” اور پھر وہ لمحہ آیا، جب خدا تعالیٰ نے حضرت ابرام کو آسمان کی وسعتوں کی طرف متوجہ کیا اور فرمایا: “ابرام! ان ستاروں کو دیکھو، اگر تم شمار کر سکتے ہو تو کرو، کیونکہ تمہاری نسل بھی انہی ستاروں کی مانند بے شمار ہوگی۔”
حضرت ابرام نے اُس وعدے پر، جو وعدۂ یقین تھا، کامل ایمان کے ساتھ لبیک کہا، اور وہ ایمان ایسا کامل تھا کہ انہیں مقربین اور صالحین میں شامل کر دیا گیا۔ ان کے دل کا یقین دنیا کے مادی پیمانوں سے ماورا، صرف رب کی رضا میں فنا ہو چکا تھا۔
زمانہ گزرنے لگا، ایام کا کارواں اپنی منزلیں طے کرتا رہا۔ اور بالآخر وہ وقت بھی آیا جب حضرت ابرام کو بیٹا عطا ہوا، مگر بی بی سارئی کے بطن سے نہیں، بلکہ اُن کی خادمہ، بی بی ہاجرہ کے بطن سے۔ اس بیٹے کا نام اسماعیل رکھا گیا۔
تیرہ سال بیت گئے۔ حضرت اسماعیل جوان ہونے لگے، اور حضرت ابرام کی عمر مبارک ننانوے برس کو پہنچی۔ بی بی سارئی اب بھی بانجھ تھیں، مگر رب کا وعدہ تو ابھی باقی تھا۔
اور تب، ایک مرتبہ پھر تجلیٔ الٰہی حضرت ابرام پر نازل ہوئی — وہی آواز جو دل کو سکون دیتی ہے اور ارادوں میں ثبات بخشتی ہے: “ابرام! اپنے رب کے وعدے پر قائم رہو، شک میں نہ پڑو، فانی وسوسوں کی باتوں میں نہ آؤ، بے عیب ہو کر میرے حضور چلو، میں تم سے عہد کر چکا ہوں، اور میں اپنا عہد ضرور پورا کروں گا۔ میں بی بی سارئی کے بطن سے بھی تمہیں نسل عطا کروں گا، اور تمہاری نسل کو عزت و برکت سے نوازوں گا۔”
یہ پیغام رب کا وہ اٹل وعدہ تھا جسے کوئی شق نہیں بدل سکتی تھی — نہ عمر کی حد، نہ جسم کی ناتوانی، نہ بانجھ پن کی محرومی۔ کیونکہ جس نے کُن فرمایا، وہی تمام پردے ہٹا کر کرم نازل کرنے والا ہے۔ اور حضرت ابرام کا یقین، وہ چراغ بن چکا تھا جو ہر دور کے سالک کو سکھاتا ہے کہ وعدۂ الٰہی اگر دل میں اُتر جائے تو وہ یقین بن جاتا ہے، اور یقین فنا کو بقا میں بدل دیتا ہے۔
مولانا جلال الدین رومی
منتظر باش، وعدۂ دوست است
نیم شب میں نالۂ خاموش است
تشریح:
منتظر رہو! کہ یہ محبوب کا وعدہ ہے
اگرچہ نیم شب کی خاموشی میں نالہ بھی ساکت ہے،
لیکن جس نے کہا ہے، وہ ضرور پورا کرے گا۔
روحانی نتائج:
- یقین، وعدے کو قریب کرتا ہے — حضرت ابرام نے سوال کیا، لیکن شک نہ کیا؛ یہی ان کی روحانی بلندی کا سبب بنا۔
- اللہ تعالیٰ کی تاخیر، انکار نہیں — تیرہ برس بعد بھی وعدہ زندہ رہا؛ رب کبھی بھولتا نہیں، وہ تو آزمائش میں وفا تلاش کرتا ہے۔
- بانجھ پن، جسمانی رکاوٹ ہے، لیکن رب کا وعدہ روحانی زندگی بخشتا ہے — بی بی سارئی کی گود سونی سہی، لیکن وعدۂ رب سے روشن رہی۔
اختتام:
حضرت ابرام کا یہ باب ہمیں سکھاتا ہے کہ رب کا وعدہ وقت کا محتاج نہیں بلکہ دل کے یقین کا تابع ہوتا ہے۔ وہ جنہوں نے اپنا سب کچھ رب کی رضا کے سپرد کر دیا، اُن کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ جب بندہ بظاہر محرومی میں بھی شکر کرے، اور طویل انتظار میں بھی یقین قائم رکھے، تو پھر رب تاخیر نہیں فرماتا بلکہ وہ عطا کرتا ہے — ایسی عطا جس میں نسلوں کی برکت، اقوام کی ہدایت، اور روحوں کی روشنی چھپی ہوتی ہے۔
مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔