نشانِ عہد، یادِ نجات اور خاموش فتح کا اسرار
جب کوئی امت ربِ ذوالجلال کے وعدے کی سرزمین پر قدم رکھتی ہے، تو اس سے صرف زمین پر قدم رکھنے کی نہیں بلکہ باطن میں طہارت اختیار کرنے کی بھی توقع کی جاتی ہے۔ کیونکہ جو قوم خلافتِ الٰہیہ کی میراث بننے جا رہی ہو، اُس کے جسم پر وفاداری کا نشان اور دل میں عہد کی روشنی ہونی چاہیے۔
حضرت یشوع بن نونؑ کی قیادت میں جب بنی اسرائیل دریائے یردن کو عبور کر چکے، تو ان کے لیے ضروری ہو گیا کہ وہ اپنی روحانی شناخت کی تجدید کریں۔ اُن کا سفر فقط جغرافیائی حد سے نہیں بلکہ بیابان کی بے یقینی سے رب تعالیٰ کے وعدے کی تکمیل تک تھا ایک عبور نفس سے اطاعت کی جانب تھا۔
وفاداری کی جسمانی مہر
رب تعالیٰ نے حضرت یشوع بن نونؑ کو حکم دیا کہ اُس نئی نسل کا ختنہ کریں جو بیابان میں پیدا ہوئی اور جسمانی نشانِ عہد سے محروم رہی۔ جلجال، وہ مقام جہاں قوم نے قیام کیا، عہد کی تجدید کا مرکز بن گیا۔
رب العالمین کا ارشاد تھا:
“آج میں نے تم سے مصر کی شرمندگی کو دور کر دیا۔”
یہ ختنہ صرف جسمانی تطہیر نہ تھی بلکہ رب سے تعلق کی تجدید، ایک مقدس علامت کہ وہ قوم اب اُس عہد کی وارث ہے جس میں وفاداری خون کی طرح رواں ہے۔ ہر زخم قربانی کی یاد، اور ہر درد روح کی صفائی کا نشان تھا۔
نجات کی شب کی یاد
ختنہ کے بعد جب قوم صحتیاب ہوئی، تو حضرت یشوع بن نونؑ نے رب کے حکم سے فسح کی رسم دوبارہ بحال کی۔
یہ وہی مقدس شب تھی جس میں رب تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو مصر کی غلامی سے نجات عطا فرمائی تھی۔
اب وہی فسح، وعدہ شدہ زمین پر ادا کی جا رہی تھی اُس سرزمین پر جس کا ذکر انبیاء کی دعاؤں میں تھا اور جس کے لیے نسلوں نے فاقہ کشی اور وفا کے زخم سہے۔ جس روز فسح منائی گئی، اُسی روز آسمان سے نازل ہونے والی من و سلویٰ بند ہو گئی، اور زمین کا پہلا رزق اُن کے نصیب میں آیا۔ یہ ایک علامت تھی کہ اب بنی اسرائیل قوم بچپن سے نکل کر بلوغت میں داخل ہو چکی ہے آسمانی پرورش سے زمینی ذمہ داری تک، معجزے سے خدمت تک کا سفر۔
خاموش اطاعت کا اعلان
بنی اسرائیل کے سامنے اب یریحو کا قلعہ تھا ایک شہر جو مضبوط دیواروں سے گِھرا، خوف سے لبریز، اور دنیاوی نگاہ میں ناقابلِ تسخیر تھا۔
مگر رب العزت کا منصوبہ تلواروں سے فتح پانے کا نہیں، بلکہ اطاعت، خاموشی اور عبادت سے کامیابی کا تھا۔
حضرت یشوع بن نونؑ کو حکم دیا گیا کہ چھ دن تک قوم بغیر کچھ کہے، صرف عہد کے صندوق کے گرد نرسنگوں کے ساتھ طواف کرے، اور ساتویں دن سات بار طواف کے بعد نعرہ بلند کرے۔
نہ لڑائی، نہ نیزہ فقط طواف، سجدہ اور صبر۔ جب ساتویں دن رب کے حکم پر نعرہ بلند کیا گیا، تو وہ بلند و قوی دیواریں زمیں بوس ہو گئیں اطاعت کی طاقت نے فصیلوں کو سرنگوں کر دیا۔
ایمان کی صدا، خاموشی کی فتح
یہ فتح نہ کسی فوج کی تھی، نہ کسی انسانی تدبیر کی۔
یہ اُس امت کی فتح تھی جو رب العزت کے حکم پر سرفگندہ ہو کر چلی، خاموشی سے طواف کیا، اور دل میں یقین کی روشنی روشن رکھ کر صدا بلند کی۔
راحب، وہ عورت جس نے سرخ رسی کو نشانِ امان بنایا، اور اُس کا خاندان، رب تعالیٰ کے رحم سے محفوظ رہا تاکہ رب العالمین کی رحمت، وعدہ اور نجات کی علامت آنے والی نسلوں میں زندہ رہے۔
بیدل دہلویؒ
کارِ حق در خامشی باشد پُر از فریاد و شور
قلعہها افتند زان نعرہ کہ باشد بے ظہور
ترجمہ:
حق کا عمل بظاہر خاموش ہوتا ہے، مگر باطن میں اُس میں فریاد و شور چھپا ہوتا ہے۔
قلعے اُن غیر مرئی نعروں سے گر جاتے ہیں جو دلوں کی گہرائی سے نکلتے ہیں۔
تشریح:
یریحو کی دیواریں اس طواف اور نعرہ کی گواہ تھیں جس میں زبان ساکت مگر دل پکار رہا تھا۔ اطاعت، وفاداری، اور اندرونی ایمان نے وہ شور پیدا کیا جو سنا نہیں گیا، مگر قلعے گرا گیا۔
نتیجہ
ختنہ، فسح، اور یریحو یہ تینوں مرحلے بنی اسرائیل کی مکمل روحانی تربیت تھے۔ ختنہ نے جسم پر عہد کا نشان ثبت کیا، فسح نے غلامی کی یاد کو عبادت میں ڈھالا، اور یریحو کی فتح نے بتا دیا کہ خاموش اطاعت میں وہ طاقت ہے جو فصیلوں کو مٹی میں ملا دیتی ہے۔
اختتامیہ
یہ باب ہمیں سکھاتا ہے کہ جب امت اپنے رب کے حکم پر جسم و روح کی طہارت، قربانی کی یاد، اور خاموشی کی عبادت کو اپناتی ہے، تو زمین اُس کے قدموں میں جھکتی ہے۔حضرت یشوع بن نونؑ کی قیادت میں بنی اسرائیل نے یہ دکھایا کہ ایمان محض عقیدہ نہیں، بلکہ عمل ہے؛ اور اطاعت، محض بندگی نہیں، بلکہ کامیابی کی کنجی ہے۔ سجدے میں جو قوم جھکے، رب اُس کے لیے راستے کھول دیتا ہے اور جو خاموشی میں وفا کرے، اُس کے لیے فصیلیں خود جھک جاتی ہیں۔