نوحؑ – نبوت، قوم اور نافرمانی

حضرت نوحؑ، جو کہ حضرت آدمؑ کی نسل میں سے تھے، اپنے زمانے میں تقویٰ، اطاعت، بندگی اور اخلاص کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔ آپؑ اُن ہستیوں میں سے تھے جنہیں ربِ کائنات نے نبوت سے سرفراز فرمایا تاکہ وہ گمراہی میں ڈوبی ہوئی انسانیت کو ہدایت کی روشنی عطا کریں۔ حضرت نوحؑ کو اللہ تعالیٰ نے تین بیٹے عطا فرمائے: حضرت سامؑ، حضرت حامؑ، اور حضرت یافتؑ، جو آگے چل کر بنی نوع انسان کی نسل کے بانی بنے۔

زمانہ حضرت نوحؑ کا ایسا دور تھا جب انسانوں کی آبادی زمین کے مختلف علاقوں میں پھیل چکی تھی، مگر بدقسمتی سے جس طرح جسمانی آبادی میں اضافہ ہوا، اُسی طرح گناہوں، فتنہ، ظلم، اور نافرمانی کا سیلاب بھی پھیلتا گیا۔ لوگ اپنے خالق کو بھول کر بت پرستی، خونی مظالم، اور ناپاک خواہشات کے اسیر ہو چکے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب ربِ کریم کی مخلوق اُس مقصد سے ہٹ چکی تھی جس کے لیے اُسے تخلیق کیا گیا تھا: یعنی خالقِ حقیقی کی بندگی۔

بیدل دہلوی فرماتے ہیں:

“بیدلانِ حق ز نَفس و تن بریدند ای حکیم
در رہِ یار از خودی، دل وا نہ کردند”

تشریح: جو اللہ کے سچے عاشق ہوتے ہیں، وہ اپنے نفس اور دنیاوی خواہشات سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں، اور محبوبِ حقیقی کے لیے ہر قربانی دیتے ہیں۔ حضرت نوحؑ نے بھی قوم کی مخالفت، طعنہ و تشنیع کو برداشت کیا، مگر اپنے رب کی راہ سے نہ ہٹے۔

نتائج:

  1. حضرت نوحؑ کی زندگی صبر، استقامت اور اخلاص کا عملی نمونہ ہے۔
  2. انسان جب اللہ کے پیغام کو رد کرتا ہے تو وہ اپنے انجام کی طرف خود بڑھتا ہے۔
  3. نبوت کا فریضہ آسان نہیں، مگر اس میں رضا الٰہی کی کامل خوشنودی ہے۔
  4. اللہ تعالیٰ ہمیشہ انسان کو موقع دیتا ہے کہ وہ رجوع کرے، مگر ضد اور انکار کی حد ہوتی ہے۔

اختتام:

یہ سبق ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہدایت، دعوت اور نبوت ایک عظیم ذمہ داری ہے، جس میں صبر، محبت، اور دل کا ظرف درکار ہوتا ہے۔ حضرت نوحؑ نے نہ صرف ایک پیغام رساں کا کردار ادا کیا، بلکہ قربانی، دعا اور محبت سے اُس خالقِ کائنات کی نمائندگی کی جو ہر لمحہ اپنے بندوں کو معاف کرنے کے لیے تیار ہے۔ اگر آج بھی انسان اپنی نافرمانی کو ترک کر کے رب کی طرف رجوع کرے، تو ربِ رحیم اُسے پھر سے اپنی رحمت کے سائے میں لے سکتا ہے۔

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔