نیک سامری

سیدنا حضرت عیسیٰ ؑ نے اُس عالمِ دین کو  رحم دلی کے حوالے سے  ایک مثال پیش کرتے ہوئے فرمایا: ” قومِ بنی اسرائیل کا ایک شخص یروشلم سے شہرِ یریحُو کی طرف جا رہا تھا۔ چلتے چلتے ڈاکوؤں میں پھنس گیا۔ اُنھوں نے اُس کے کپڑے اتار لئے۔ پھر مار پِیٹ کر نیم مردہ حالت میں چھوڑ کر چلتے بنے۔ ہؤا یوں کہ اُسی راستے پر ایک امامِ بیتُ المَقدِس جا رہا تھا۔ اُس نے اُس زخمی شخص کو دیکھا، تو اُسے ہاتھ لگا کے ناپاک ہو جانے کے خوف سے کنارہ کر کے گزر گیا۔ پھر ایک مذہبی رہنما وہاں سے گزر رہا تھا جب اُس نے اس زخمی شخص کو دیکھا تو وہ بھی کنارہ کر کے گزر گیا۔

 پھر سامری قوم کا ایک شخص سفر کرتا ہؤا اُس کے پاس آ پہنچا۔ اور دیکھ کر اُسے اُس زخمی شخص پر بہت ترس آیا۔ پاس آ کر اُس نے زخموں کو خراب ہونے سے بچانے کے لئے اُن پر شراب اور اُنھیں اکڑنے سے بچانے کے لئے تیل لگا کر مرہم پٹی کی اور اپنی سواری پرلاد کر کسی سرائے میں لے جا کر اُس کی دیکھ بھال کرنے لگا۔ دوسرے دن اُس نے دو دینار سرائے کے مالک کو دے کر کہا: ’اِس کی دیکھ بھال کرو۔ اگر اِس سے زیادہ خرچ ہوئے، تو مَیں واپسی پر ادا کر دوں‌گا۔‘“ سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے اُس عالمِ دِین سے پوچھا: ”اب بتاؤ! جو شخص ڈاکؤوں میں جا پھنسا تھا، تمہاری فہم میں اُن تینوں میں سے جنھوں نے اُسے زخمی ہونے کے بعد دیکھا، کون اُس کا ’بھائی‘ ٹھہرا؟“ عالمِ دِین نے کہا: ”وہ جس نے اُس کے ساتھ ہمدردی کی۔“ آپؑ نے فرمایا: ”جاؤ! تم بھی ایسا ہی کِیا کرو۔