ٹڈیوں کا طوفان اور فرعون کا جھوٹا اعتراف
جب دل ہدایت کی روشنی سے انکار کرتا رہے، اور ظلم کا تخت توبہ کے سجدے سے خالی ہو، تو ربِ ذوالجلال اپنی نشانیوں کو اور زیادہ نمایاں فرما دیتا ہے تاکہ ہر غرور والا جان لے کہ اختیار، صرف اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ سے کلام فرمایا: “اے موسیٰ! پھر فرعون کے پاس جاؤ اور اسے میرا فرمان سناؤ: ‘اے فرعون! کب تک تُو اپنے آپ کو معبودِ برحق کے سامنے جھکانے سے انکار کرتا رہے گا؟ میری قوم بنی اسرائیل کو آزادی دے تاکہ وہ میری عبادت کریں۔ اگر تو باز نہ آیا تو سن لے! میں تیرے ملک کو ٹڈیوں سے بھر دوں گا، جو تیری زمین کو یوں نگل جائیں گی کہ مصر کی خاک بھی ان کے وجود سے چھپ جائے گی۔’”
حضرت موسیٰؑ و حضرت ہارونؑ نے فرعون کے دربار میں یہ فرمانِ الٰہی بڑے جلال اور وقار کے ساتھ پیش کیا اور واپس تشریف لے آئے۔
ان کے جانے کے بعد فرعون کے درباری، جو پے در پے آفات سے عاجز آ چکے تھے، فریاد کرنے لگے:
“اے بادشاہ! آخر کب تک یہ شخص ہمیں تباہی میں دھکیلتا رہے گا؟ ملک برباد ہو گیا ہے، خدارا ان کو اجازت دو تاکہ اپنے رب کی عبادت کریں!”
فرعون نے وقتی دباؤ میں آ کر حضرت موسیٰؑ و حضرت ہارونؑ کو بلایا اور کہا:
“جاؤ، لیکن بتاؤ کون کون تمہارے ساتھ جائے گا؟”
حضرت موسیٰؑ نے فرمایا:
“ہم سب چھوٹے، بڑے، مرد، عورتیں، اور ہمارے مویشی بھی، کیونکہ یہ قربانی کا دن ہے اور ہم سب مل کر اپنے رب کی عبادت کے لیے جا رہے ہیں۔”
فرعون کا غرور پھر جاگا، اور وہ بولا:
“صرف مرد جائیں، عورتوں اور بچوں کو ساتھ لے جانا تمہارا بہانہ ہے۔ اگر انہیں بھی لے گئے تو مان لوں گا کہ تمہارا رب واقعی قادرِ مطلق ہے!”
یہ سن کر ربّ العالمین نے حضرت موسیٰؑ کو حکم دیا:
“اپنا عصا بلند کرو، تاکہ مصر کی سرزمین ٹڈیوں سے بھر دی جائے۔”
چناچہ حضرت موسیٰؑ نے عصا بلند کیا، اور خدا تعالیٰ نے ریگستان کی جانب سے تیز و تند پُروا کو بھیجا، جو پوری رات اور دن چلتی رہی۔ اگلی صبح جب سورج طلوع ہوا، تو زمین ٹڈیوں کے لشکروں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ مصر کی تاریخ میں اس سے بڑی آفت پہلے کبھی نہیں آئی تھی۔
ان ٹڈیوں نے نہ صرف کھیتوں کو تباہ کر دیا، بلکہ ژالہ باری کے بعد اگنے والی نئی ہریالی کو بھی چٹ کر گئیں۔ درختوں کے نئے شگوفے، کونپلیں، اور پودے سب ان کی غذا بن گئے۔
فرعون نے جب یہ منظر دیکھا تو بوکھلا کر حضرت موسیٰؑ و حضرت ہارونؑ کو پھر دربار میں بلایا اور کہا:
“میں مانتا ہوں کہ مجھ سے تمہارے رب کے حضور گستاخی ہوئی ہے۔ ایک موقع اور دو، اور اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمیں اس آفت سے نجات دے۔”
حضرت موسیٰؑ و حضرت ہارونؑ دربار سے باہر نکلے، اور حضرت موسیٰؑ نے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے وہ دعا شرفِ قبولیت بخشی، اور بڑی سمندری مغربی ہوا چلی، جو تمام ٹڈیوں کو اُڑا کر بحیرۂ احمر میں لے گئی۔ ایک بھی ٹڈی باقی نہ رہی۔
مگر… جب آفت ٹلی، اور زمین نے سکون کا سانس لیا، تو فرعون اپنے تکبر میں دوبارہ پلٹ آیا، اور بنی اسرائیل کو جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ یوں اس کا اعتراف بھی جھوٹا نکلا، اور اس کا دل پہلے سے زیادہ سنگ دل ہو گیا۔
حضرت بیدلؒ
بادِ دعا گرچہ بَرَد دردِ بلا
دلِ سیہ را نہ شود نور سرا
تشریح:
اگرچہ دعا کی ہوا مصیبتوں کو اڑا لے جائے، مگر وہ دل جو سیاہ ہو چکا ہو، اس میں نور بس نہیں سکتا۔
نتائج:
- اللّٰہ کی نشانیاں ظالموں کے لیے تنبیہ ہوتی ہیں، لیکن دل کے اندھے انہیں بھی دیکھنے سے قاصر رہتے ہیں۔
- وقتی اقرار اگر سچائی پر قائم نہ ہو، تو وہ فریب کی ایک نئی شکل ہوتا ہے۔
- اللّٰہ کی قدرت صرف آفت کے ذریعے نہیں، بلکہ معجزاتی نجات میں بھی ظاہر ہوتی ہے۔
- جو وعدے عافیت کے وقت توڑے جائیں، وہ وبال کا سبب بنتے ہیں۔
اختتامیہ:
یہ سبق ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم وقتی خوف یا وقتی فائدے کی بنیاد پر رب کی طرف رجوع نہ کریں، بلکہ مستقل مزاجی اور صدقِ دل کے ساتھ اپنی راہ کو اس کے حکم کے تابع بنائیں۔ فرعون کی کہانی ایک آئینہ ہے ان تمام دلوں کے لیے جو بار بار سچائی کے دروازے پر دستک دے کر پھر خود ہی واپس پلٹ آتے ہیں۔ ایمان وہی ہے جو توبہ کو عہدِ وفا بنا دے، نہ کہ وقتی نجات کا سودا۔
درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔