پاک اور ناپاک

ایک مرتبہ سیدنا حضرت عیسٰی ؑلوگوں کو ایک مثال  بیان کرتے ہوئے فرمانے لگے ”میری بات غور سے سنو اور سمجھنے کی کوشش کرو! کھانے پینے کی کوئی بھی چیز منھ کے ذریعے انسان کے اندر جانے سے اُسے ناپاک نہیں کرتی، بلکہ ناپاک تو وہ چیز کرتی ہے جو انسان کے اندر سے باہر نکلتی ہے۔“ جب وہ سب ہجوم سے رخصت ہو کر اُس گھر تشریف لے آئے جہاں آپؑ ٹھہرا کرتے تھے، تو حواریینؓ آپؑ سے پوچھنے لگے: ”مولا! اِس ارشاد کا مطلب کیا ہے؟“ آپؑ نے فرمایا: ”سب کچھ دیکھنے سننے کے بعد بھی ابھی تک تمہاری سمجھ میں کچھ نہیں آیا؟ کیا تم نہیں جانتے کہ کھانے پینے کی جو چیز منھ کے راستے اندر جاتی ہے، وہ انسان کو ناپاک نہیں کر سکتی؟ اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ چیز اُس کے دل میں تو نہیں جاتی، بلکہ پیٹ میں داخل ہونے کے بعد آخرِ کار خارج ہو کر اُسے صاف کر جاتی ہے۔“ سیدنا عیسٰیؑ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ”بےشک انسان کو ناپاک تو وہ چیزیں کرتی ہیں جو انسان کے اندر سے باہر نکلتی ہیں۔ دل و دماغ ہی سے برے خیالات نکلتے ہیں جیسا کہ شہوت‌پرستی، چوری چکاری، خونریزی، لالچ، بدی، دھوکا، مکر و فریب، بدنظری، بدگوئی، غرور اور ہر طرح کی حماقتیں۔ اِس طرح اِن تمام برائیوں کا مرکز دل و دماغ ہوئے جو انسان کو ناپاک کرتے ہیں۔“