پہلے دن کی تخلیق

قصہ: روشنی اور تاریکی کی تخلیق

ربّ العالمین، جو ہر چیز کا خالق اور ہر حکمت کا سرچشمہ ہے، اُس نے تخلیق کے آغاز میں اپنی بے مثال قدرت کو ظاہر کرتے ہوئے فرمایا: “روشنی ہو جائے!” اسی لمحے کائنات کی گہرائیوں میں روشنی کی کرنیں نمودار ہوئیں، جو دنیا کے ہر گوشے میں پھیل کر ہر شے کو منور کرنے لگیں۔
پھر، مالک الملک نے ارشاد فرمایا کہ روشنی اور تاریکی ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں، تاکہ وقت کی ترتیب اور زندگی کا توازن قائم ہو۔ خالقِ ارض و سما کے اس حکم سے روشنی اور تاریکی اپنی اپنی حدوں میں سمٹ گئیں اور یوں رات اور دن کی بنیاد رکھ دی گئی۔

ربّ ذوالجلال نے روشنی کو “دن” کا نام دیا اور تاریکی کو “رات” کا۔ یوں انسان کے لیے دن کام کرنے، محنت کرنے، اور اللہ رب العزت کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا وقت بن گیا، جبکہ رات آرام، سکون، اور ربّ العالمین کی رحمتوں پر غور و فکر کے لیے مخصوص ہو گئی۔ اس ترتیب کے ساتھ زندگی کا پہلا دن مکمل ہوا اور تخلیق کا پہلا باب ختم ہوا۔

مولانا رومیؒ اس موقع پر فرماتے ہیں:
“امر او گفت نور، شد آشکار
تاریکی شد جدا، روزگار”
تشریح:
مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالی کے ایک حکم سے روشنی پیدا ہوئی اور اندھیرا اس سے الگ ہو گیا، یوں دن اور رات کا آغاز ہوا۔ شاعر کے یہ الفاظ ہمیں اللہ رب العزت کی حکمت کی عظمت کا شعور دلاتے ہیں کہ کس طرح اس کی تخلیق سے دنیا میں ایک نیا باب شروع ہوا۔

نتائج:

اللہ کی نعمتوں کا شکر: دن کو محنت اور رات کو سکون کے لیے مخصوص کر کے خالق نے ہمیں موقع دیا کہ ہم اس کی نعمتوں کو پہچانیں اور اس کا شکر ادا کریں۔

رب العزت کی عظمت اور حکمت کا اعتراف: روشنی اور تاریکی کی تخلیق ہمیں یاد دلاتی ہے کہ رب العالمین کی قدرت ہر چیز پر حاوی ہے اور اس کا ہر حکم سراپا حکمت ہے۔

وقت کی قدر کا سبق: روشنی اور تاریکی کے درمیان فرق نے دن اور رات کا تصور پیدا کیا، جو ہمیں وقت کی اہمیت، نظم و ضبط، اور اعتدال کا درس دیتا ہے۔

اختتام:
یہ قصہ ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم خالقِ کائنات کی حکمت اور عطا پر غور کریں۔ روشنی اور تاریکی کا وجود ہمیں وقت کی قدر کرنے، زندگی میں توازن برقرار رکھنے، اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کا سبق دیتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان نعمتوں پر شکر گزار رہیں اور اللہ، جو رب العالمین، مالک الملک، اور خالقِ کائنات ہے، کی حمد و ثنا کرتے ہوئے اپنی زندگی کو اس کے احکام کے مطابق گزاریں۔ یوں، ہم نہ صرف دنیاوی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں بلکہ اپنی آخرت کو بھی سنوار سکتے ہیں۔

مندرجہ سوالات کے جوابات دیں۔