چار دن کے مُردے کا زندہ ہونا

اُنھی دنوں ایک صاحب بیمار پڑ گئے۔ نام تھا اُن کا لعزر۔ وہ اپنی بہنوں بی‌بی مریم اور بی‌بی مرؔتھاکے ساتھ بَیت عَنِیّاؔہ گاؤں میں رہتے تھے۔ یہ بی‌بی مریم وہی ہیں جنھوں نے بعد ازاں سیدنا حضرت عیسٰیؑ کے سرِ مبارک اور پائے مبارک پر خالص سنبل کا عطر انڈیل دیا۔ پھر اپنے سر کے بالوں سے آپؑ کے پائے مبارک عقیدتًا پونچھے۔ اِن ہی کے بھائی لعزر بیمار تھے۔ چناں چہ اِن بہنوں نے سیدنا حضرت عیسٰیؑ کو یہ کہلا بھیجا کہ ”مولا! جسے آپؑ عزیز رکھتے ہیں، وہ سخت بیمار ہے۔“ جب حضرت عیسٰیؑ کو یہ اطلاع ملی، تو فرمایا: ”انجامِ کار اِس بیماری سے موت مقصود نہیں، بلکہ اِس سے خدا تعالٰی کی شان کا اظہار مطلوب ہے تاکہ اِس کی وجہ سے ابنِ اللہ کی شان بھی دوبالا ہو!“ اگرچہ سیدنا حضرت عیسٰیؑ  لعزر، بی‌بی مریم ور اُن کی بہن بی‌بی مرؔتھا کو عزیز رکھتے تھے، تاہم لعزر کی بیماری کی خبر سننے کے باوجود بھی سیدنا حضرت عیسٰیؑ نے مزید دو دن وہیں قیام فرمایا۔ اِس کے بعد آپؑ نے حواریین ؓسے فرمایا: ”چلو! ایک مرتبہ پھر صوبۂ یہُودِیہ چلیں!“ حواریین ؓنے آپؑ سے عرض کی: ”قبلہ! ابھی حال ہی میں یہودی علماء آپؑ کو سنگسار کرنے کے درپے تھے۔ اور آپؑ ہیں کہ دوبارہ وہیں جانے کا قصد فرما رہے ہیں؟“ سیدنا حضرت عیسٰیؑ نے فرمایا: ”کیا دن میں بارہ گھنٹے روشنی نہیں ہوتی؟ دن کی روشنی میں چلنے والا ٹھوکر نہیں کھاتا کیوں کہ وہ دنیا جہان کی روشنی میں دیکھ سکتا ہے۔ مگر رات کو چلنے والا ٹھوکر کھا جاتا ہے کیوں کہ اُس وقت روشنی نہیں ہوتی۔“ اِن ارشادات کے بعد آپؑ نے حواریینؓ سے فرمایا: ”ہمارا دوست لعزر سو گیا ہے، مگر مَیں اُسے جگانے جا رہا ہوں۔“ حواریین ؓنے عرض کی: ”سو گیا ہے، تو سونے دیجئے مولا! وہ خود ہی صحت‌ یاب ہو جائےگا۔“ ”نیند“ سے سیدنا حضرت عیسٰیؑ کی مراد لعزر کی ”ابدی نیند“ تھی، مگر حواریین ؓیہ سمجھے کہ آپؑ بسترِ استراحت پر ”نیند“ کے بارے میں فرما رہے ہیں۔ تب سیدنا حضرت عیسٰیؑ نے حواریینؓ کو صاف صاف بتا دیا کہ ”لعزر اللہ کو وفات پا گیا ہے! البتہ مَیں تمہاری خاطر خوش ہوں کہ اُس کی موت کے وقت مَیں وہاں نہیں تھا تاکہ تمہارا ایمان اَور پختہ ہو جائے۔ بہر حال، چلو! اُس کے پاس چلتے ہیں۔“ تب حضرت توما ؓنے اپنے ساتھی حواریینؓ سے کہا: ”چلو بھائیوں! سیدنا حضرت عیسٰیؑ کے ساتھ مرنے چلیں! چوں کہ بَیت عَنِیّاؔہ گاؤں، شہرِ یروشلم سے قریبًا دو مِیل کے فاصلے پر تھا، اِس لئے بی‌بی مرتھا اور بی‌بی مریم کے گھر اچھے خاصے یہودی اُنھیں بھائی کی موت پر پُرسا دینے آئے ہوئے تھے۔ گاؤں کے قریب پہنچنے پر حضرت عیسٰیؑ کو اطلاع دی گئی کہ ”لعزر کو دفن ہوئے چار دن گزر چکے ہیں۔“ جیسے ہی بی‌بی مرؔتھا نے سیدنا حضرت عیسٰیؑ کی آمد کی خبر سنی، آپؑ سے ملاقات کے لئے باہر چل دِیں۔ مگر بی‌بی مریم گھر ہی میں سوگ میں بیٹھی رہِیں۔ بی‌بی مرؔتھا نے عرض کی: ”مولا! اگر آپؑ یہاں ہوتے، تو بھائی جان کی موت واقع نہ ہوتی۔ مگر میرا تو ایمان ہے کہ اب بھی آپؑ خدا تعالٰی سے جو کچھ مانگیں‌گے، وہ آپؑ کو ضرور عطا فرمائیں‌گے۔“ حضرت عیسٰیؑ  نے فرمایا: ”گھبراؤ نہیں! تمہارا بھائی دوبارہ جی اٹھے گا۔“ بی‌بی مرؔتھا عرض کرنے لگِیں: ”مجھے معلوم ہے کہ بھائی جان بروزِ قیامت اَوروں کے ساتھ زندہ کر دئے جائیں‌ گے۔“ سیدنا حضرت عیسٰیؑ نے اُنؓ سے فرمایا: ”مَیں ہوں مصدرِ حیات اور میں ہوں منبعِ حیاتِ نَو! مجھ پر ایمان لانے والے بظاہر موت سے ہمکنار ہوں‌گے، مگر در حقیقت زندہ رہیں‌گے۔ جو مجھ پر ایمان لاتے اور میری بدولت یہ زندگی پاتے ہیں، وہ اَمَر ہو جائیں‌گے۔ کیا میری اِس بات پر تمہارا کامل ایمان ہے؟“ بی‌بی مرؔتھا نے جواب دیا: ”ہاں مولاؑ! مَیں اِس بات پر پختہ ایمان رکھتی ہوں کہ آپؑ ہی خلیفۃُ اللہ ہیں۔ ابنِ اللہ ہیں۔ سیدنا حضرت عیسٰیؑ وہی ہیں جن کی آمد کی یہ دنیا منتظر تھی۔“ یہ کہہ کر بی‌بی مرؔتھا گھر لوٹ گئیں اور اپنی بہن بی‌بی مریم سے علٰیحدگی میں کہنے لگِیں:  مولاؑ  تشریف لے آئے ہیں اور تمہیں بلا رہے ہیں۔“ یہ سنتے ہی بی‌بی مریم سیدنا حضرت عیسٰیؑ سے ملاقات کرنے کے لئے فورًا اٹھ کے روانہ ہو گئیں۔ آپؑ ہنوز گاؤں میں تشریف نہیں لائے تھے، بلکہ وہیں رکے ہوئے تھے جہاں بی‌بی مرؔتھا سے آپؑ کی ملاقات ہوئی تھی۔ جب بنی اسرائیل کے اُن لوگوں نے جو پُرسا دینے کے لئے بی‌بی مریم کے گھر پر آئے ہوئے تھے یہ دیکھا کہ ”بی بی مریم تیزی سے اٹھ کر باہر نکلی ہے“، تو یہ خیال کیا کہ ”غالبًا سیدنا حضرت عیسٰیؑ قبر پر جا رہے ہیں اور وہ بھی اپنے بھائی کی قبر پر دل ہلکا کرنے جا رہی ہے۔“ اِس لئے وہ بھی آپؓ کے پیچھے چل دئے۔ بی‌بی مریم نے جب سیدنا حضرت عیسٰیؑ کو دیکھا، تو تعظیمًا آپؑ کی قدم‌بوسی کی اور کہا: ”مولاؑ! اگر آپؑ اُس وقت یہاں ہوتے، تو آج بھائی جان زندہ ہوتے!“ اِتنے میں وہ لوگ بھی آ گئے۔ جب حضرت عیسٰیؑ نے بی‌بی مریم اور اُن تمام بنی اسرائیلی لوگوں کو اشکبار دیکھا، تو آپؑ کو دلی رنج ہؤا۔ آپؑ نے بہت مضطرب ہو کر فرمایا: ”کہاں ہے اُس کی قبر؟“ اُنھوں نے کہا: ”حضور! آپؑ اِدھر تشریف لائیے اور دیکھ لیجئے!“ یہ سن کر سیدنا حضرت عیسٰیؑ کے آنسو بےساختہ بہنے لگے۔ بعض بنی اسرائیلی کہنے لگے: ”دیکھو تو! کتنا پیار تھا اِسے مرحوم سے!“ مگر دوسرے کہنے لگے: ”عجب ہے کہ اِس نے ایک نابینا شخص کی بینائی تو لَوٹا دی، مگر اِتنا نہ کر سکا کہ لعزر کو مرنے سے بچا لیتا!“  سیدنا حضرت عیسٰیؑ انتہائی افسردگی کے عالَم میں اُس کی قبر پر تشریف لے گئے۔ وہ غارنُما قبر تھی جس کا منھ پتھر کی ایک بڑی سِل سے بند کر دیا گیا تھا۔ سیدنا حضرت عیسٰیؑ نے فرمایا: ”یہ سِل ہٹا دو!“ مرحوم کی بہن بی‌ بی مرؔتھا نے عرض کی: ”مولا! بھائی جان کو وفات پائے چار روز ہو گئے ہیں! اب تو قبر میں تعفن بھی پھیل گیا ہوگا۔“ حضرت عیسٰیؑ نے بی‌بی مرؔتھا سے فرمایا: ”کیا مَیں نے نہیں کہا تھا کہ ’اگر ایمان پختہ ہوگا، تو اللہ تعالٰی کی شان دیکھ پاؤگی‘؟“ چناں چہ اُنھوں نے وہ سِل ہٹا دی۔ سیدنا حضرت عیسٰیؑ نے آسمان کی جانب نظریں اٹھائیں اور فرمایا:  پروردگار! آپ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آپ نے میری التجا سن لی۔ مَیں اچھی طرح جانتا ہوں کہ آپ ہمیشہ میری سنتے ہیں، مگر مَیں بآوازِ بلند صرف اِس لئے شکرگزار ہؤا کہ یہ تمام لوگ اِس بات پر ایمان لے آئیں کہ مجھے آپ ہی نے مبعوث فرمایا ہے۔“ یہ فرمانے کے بعد سیدنا حضرت عیسٰیؑ نے بآوازِ بلند پکارا: ”لعزر! باہر آ جاؤ!“ مرحوم باہر آ گئے۔ اُن کے ہاتھ پاؤں کفن کی ڈور سے بندھے ہوئے تھے اور چہرہ ایک رومال سے۔ سیدنا حضرت عیسٰیؑ نے لوگوں سے فرمایا: ”اِس ڈور کے بل کھول دو! اِسے گھر جانے دو!“ یوں سیدنا حضرت عیسٰیؑ نے چار دن کے مُردے کو زندہ کرکے حیات ابدی بخشی۔  

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں