چرواہے کے دل میں چھپا بادشاہ

جب قیادت خدا کی فرمانبرداری سے ہٹ کر خودسری، ضد، اور دنیاوی خواہشات کی راہ پر چلنے لگے، جب نبی کی صدائیں بےاثر ہو جائیں، اور جب قربانی اطاعت پر غالب آ جائے، تو ربِّ قہار خاموش نہیں رہتا بلکہ ایک فیصلہ صادر ہوتا ہے جو تختوں کی بنیادیں ہلا دیتا ہے۔
حضرت ساؤلؑ، جو ربّ کے حکم سے بادشاہ بنائے گئے تھے، نافرمانی اور رعونت کی راہ پر چل پڑے، اور ان کا دل اُس تابعداری سے خالی ہو گیا جو ربّ کو محبوب ہے۔
حضرت سموئیلؑ، جو دل میں بنی اسرائیل قوم کا درد رکھتے تھے، بارہا سمجھاتے رہے مگر ضد نے دل کو بند رکھا۔ یہاں تک کہ وہ وقت آیا جب ربّ تعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ اب یہ دل میرے لائق نہیں رہا، اور ایک نئی قیادت کی تیاری کا آغاز ہو گیا۔ مگر ربِ کریم کی چُناؤ کی حکمت دنیا کی آنکھ سے اوجھل رہتی ہے، وہ کسی قصر، لشکر یا نسل کو نہیں بلکہ دل کی پاکیزگی، اخلاص، اور خشیت کو دیکھتا ہے۔
ربِ کائنات کی طرف سے حضرت سموئیلؑ کو حکم ملا کہ بیت لحم جا کر یسّی کے بیٹوں میں سے ایک کو مسح کریں، رب تعالیٰ کا یہ حکم محض ایک سیاسی تبدیلی نہ تھی بلکہ روحانی انقلاب کا آغاز تھا۔ کیونکہ ربِ جلیل بادشاہ وہی مانتا ہے جو تنہائی میں اُس کا ذاکر ہو، جس کی چراگاہ عبادت کا میدان ہو، اور جس کے دل میں قیادت کی چنگاری ربّ کی رضا سے بھڑکی ہو۔


چرواہے کے باطن میں چھپی بادشاہی

جب حضرت سموئیلؑ بیت لحم پہنچے تو حضرت یسّی کے گھر کے در و دیوار میں وہ سکون اور سادگی تھی جسے دنیا کی نگاہیں اکثر نظر انداز کر دیتی ہیں۔ حضرت یسّی نے اپنے بیٹوں کو ایک ایک کر کے حضرت سموئیلؑ کے سامنے پیش کیا۔ سب سے پہلے حضرت ایلیابؑ آئے، جن کی قامت بلند، چہرہ پر جاہ و جلال، اور انداز میں درباری وقار تھا۔ حضرت سموئیلؑ کے دل میں خیال آیا کہ شاید یہی ربّ تعالیٰ کا منتخب ہے، مگر فوراً ربِ کریم کی وحی نازل ہوئی:
سموئیلؑ: میں نے اُسے رد کر دیا ہے، کیونکہ انسان چہرے کو دیکھتا ہے، مگر ربّ دل کو دیکھتا ہوںن

پھر حضرت ابیناداب سامنے آئے، مگر دل پھر خاموش رہا۔ اُس کے بعد حضرت سمّاہ حاضر ہوئے، اور تب بھی وہی سکوت طاری رہا۔ حضرت یسّی کے دیگر بیٹے، جو ایک ایک کر کے حضرت سموئیلؑ کے سامنے سے گزرے، سب میں کوئی نہ کوئی خوبی تھی، کوئی درازیِ قامت، کوئی شائستگیِ اطوار، کوئی وجاہت، مگر ربِ کائنات کی رضا ان پر نہ ٹھہری۔ حضرت سموئیلؑ کے چہرے پر حجاب سا چھا گیا، اُنہوں نے نرمی سے حضرت یسّی پوچھا: “کیا تیرے سب بیٹے یہی ہیں؟”

حضرت یسّی نے عرض کیا: “نہیں، ایک چھوٹا بیٹا ہے جو بکریاں چرا رہا ہے، اُس کا نام داودؑ ہے۔” حضرت سموئیلؑ نے فرمایا: “اُسے فوراً بلاؤ، ہم اُس کے آنے تک کچھ کھائیں نہیں گے۔

وہ لمحہ جو انسانوں کے لئے غیر اہم تھا، آسمان کے لئے سب سے بابرکت تھا۔ جب حضرت داؤدؑ چراگاہ سے حاضر ہوئے تو اُن کے چہرے پر سادگی، آنکھوں میں نور، اور وجود میں فطری عاجزی تھی۔
حضرت داؤدؑ کی آمد کے ساتھ ہی خاموش فضاؤں میں ربِ کریم کی وحی نازل ہوئی:
سموئیلؑ: “یہی ہے میرا منتخب بندہ، تم اُسے مسح کر، کیونکہ میری نظر اسی کے دل پر ٹھہری ہے۔”

حضرت سموئیلؑ نے حضرت داؤدؑ کو اپنے بھائیوں کے درمیان تیل سے بطور بادشاہ مسح کیا، اُس وقت حضرت داؤدؑ کے سر پر نہ کوئی تاج رکھا گیا، نہ اُنہیں تخت پر بٹھایا گیا، مگر آسمان نے اُنہیں اپنا منتخب فرمانروا قرار دے دیا۔

حضرت داؤدؑ کو بطور بادشاہ مسح کیا جانا ایک بادشاہ کی تقرری نہ تھی، بلکہ اُس روحانی اصول کا اعلان تھا جو قیادت کے انتخاب میں ربِ جلیل کی حکمت کو ظاہر کرتا ہے۔ ربّ تعالیٰ کے نزدیک قیادت اُن کے لئے ہے جن کا دل اُس کی رضا کا مسکن ہو، جن کی تسبیح تنہائی میں گونجتی ہو، اور جن کی آنکھیں ربّ پاک کی طرف بندگی سے جھکی ہوں۔
حضرت داؤدؑ کا وہ دل، جو چراگاہوں میں پروردگار سے ہمکلام ہوتا تھا، اُس دن زمین پر ربِ جلیل کی بادشاہی کا سفیر بنا دیا گیا۔


ربّ کی نگاہ اور انسان کی نظر

انسان ہمیشہ ظاہر کو دیکھتا ہے۔ آنکھیں قامت کی بلندی تلاش کرتی ہیں، چہرے کی کشش کو تولتی ہیں، لباس کی چمک کو عظمت سمجھتی ہیں، اور آواز کے دبدبے کو قیادت کی علامت مان لیتی ہیں۔ لیکن ربّ تعالیٰ کی نگاہ ان سب پیمانوں سے بلند ہے۔ وہ نظر جو دل کی تہوں میں اترتی ہے، نیتوں کے رنگ پہچانتی ہے، ان آنسوؤں کو گنتی ہے جو خلوت میں خاموشی سے بہے ہوں، ان سجدوں کو یاد رکھتی ہے جو تنہائی میں اخلاص کے ساتھ ادا ہوئے ہوں، اور ان آہوں کو سنتی ہے جنہیں دنیا کی کوئی سماعت چھو نہ سکی ہو۔

جب حضرت سموئیلؑ نے حضرت ایلیابؑ کو دیکھا تو اُن کی قامت بلند تھی، چہرے پر رعب اور جاہ و جلال نمایاں تھا، اور بظاہر وہ حقیقی بادشاہ نظر آتے تھے۔ مگر اسی لمحے ربِ کریم نے اپنے بندے سموئیلؑ کے دل میں یہ آواز رکھی کہ نہ چہرے کو دیکھ اور نہ قدامت کو کیونکہ میں نے اُسے رد کر دیا ہے۔ انسان ظاہر کو دیکھتا ہے لیکن ربّ دل کو دیکھتا ہے۔

یہ لمحہ محض ایک فیصلہ نہ تھا بلکہ ایک دائمی اصول کی تعلیم تھی۔ قیادت، قربت، چناؤ اور نعمت کا تعلق ان دلوں سے ہے جن میں خشیت الٰہی ہو، جن میں بندگی ہو، جن میں عاجزی چھپی ہو، اور جن کے اندر وفاداری کی خوشبو مہکتی ہو۔ ربّ تعالیٰ کی نگاہ ان دلوں پر ٹھہرتی ہے جو دنیا کی نگاہ سے اوجھل ہوں مگر ربّ جلیل کی یاد سے منور ہوں۔ جو سادہ ہوں مگر سچائی سے بھرپور ہوں۔ جو چرواہے کے دل ہوں مگر ان میں پیغمبرانہ شان چھپی ہو۔

یوں ہم جانتے ہیں کہ ربّ تعالیٰ کی نگاہ میں اصل حسن وہی ہے جو دل کی گہرائی میں ہوتا ہے۔ اصل قیادت وہی ہے جو رضائے الٰہی سے جنم لیتی ہے۔ اصل بادشاہت وہی ہے جو تختوں سے نہیں بلکہ قربتِ ربّ سے قائم ہوتی ہے۔ یہی وہ تعلیم ہے جو نسلوں کو یہ سبق دیتی ہے کہ باطن کا نور ہی دراصل آسمانی چناؤ کا معیار ہے۔


: چرواہے کی تنہائی میں ربّ کی حضوری

حضرت داؤدؑ وہ نوجوان تھے جنہیں دنیا کی آنکھ نے ایک سادہ چرواہے کے طور پر دیکھا، مگر آسمان کی نگاہ نے اُن کے دل کو سلطنت کے قابل پایا۔ اُن کی زندگی کا بیشتر حصہ چراگاہوں میں گزرا، جہاں سنگلاخ زمین تھی، خشک ہوائیں تھیں، اور تنہائی کے سوا کوئی ہم نشین نہ تھا۔ مگر یہی تنہائی داؤدؑ کے لئے حضوری کا دروازہ بن گئی۔ وہ بکریوں کے ساتھ وادیوں میں چلتے، پہاڑوں پر بیٹھ کر ستاروں کو تکتے، اور ہر رات کو ربّ کے سامنے کھول دیتے۔ داؤدؑ کا دل اُس وقت بھی بیدار رہتا جب ساری دنیا نیند کی گہرائیوں میں ڈوبی ہوتی، اور داؤدؑ کی زبان اُس وقت بھی تسبیح کرتی جب بیابان میں صرف ہوا کی سرسراہٹ باقی ہوتی۔

داؤدؑ کی بانسری سے نغمے نہ نکلتے تھے، بلکہ دعاؤں کی صدا تھی جو آسمان تک جاتی تھی۔ وہ ستاروں کے نیچے زبور کی ابتدائی سرگوشیاں کرتے، داؤدؑ آنکھوں میں دنیا کی فتنہ انگیزی نہ تھی،
داؤدؑ کے لہجے میں دنیاوی بلندپروازی کا غرور نہ تھا۔
داؤدؑ کے لبوں پر صرف رب تعالیٰ ذکر تھا،
داؤدؑ کی سوچ میں صرف رضا، اور اُن کے دل کی دھڑکنوں میں ربّ کی حضوری تھی۔

ربّ تعالیٰ نے حضرت داؤدؑ کو محل کی دیواروں میں نہیں، دربار کے ریشمی پردوں میں نہیں، بلکہ ان چراگاہوں میں تلاش کیا جہاں انسان کے قدم کم اور ربّ کی رحمت زیادہ ہوتی ہے۔ وہ مقام جہاں کوئی تخت نہیں، مگر دل تخت نشین ہوتا ہے، جہاں کوئی بادشاہی نہیں، مگر روح سلطنت کی زبان بولتی ہے، جہاں کوئی تاج نہیں، مگر آنکھوں میں نورِ اطاعت ہوتا ہے۔

یہی وہ راز ہے جو حضرت داؤدؑ کی شخصیت کو دوسرے انسانوں سے ممتاز کرتا ہے۔ ربّ تعالیٰ نے داؤدؑ کی تنہائی کو اپنی حضوری سے بھر دیا، اُن کے خاموش کلام کو زبور کا الہامی گیت بنا دیا، اور اُن کی عاجزی کو قوم کی قیادت کے لیے سب سے بڑا ہتھیار بنا دیا۔


حضرت بایزید بسطامیؒ

دل بہ دست آور کہ حج اکبر است
از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر است

ترجمہ:

دل کو حاصل کر، کیونکہ یہ حجِ اکبر کے برابر ہے، ہزاروں کعبوں سے ایک سچا دل بہتر ہے۔

تشریح:

یہ شعر اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہیں کعبے کی دیواروں پر نہیں بلکہ انسان کے دل کی کیفیت پر ٹھہرتی ہیں۔ یہی وہ روحانی اصول ہے جو حضرت سموئیلؑ کے ذریعے ہمیں سکھایا گیا کہ قیادت اور چناؤ کا معیار ربّ کے نزدیک ظاہری جاہ و جمال نہیں بلکہ وہ دل ہے جو تواضع، صدق اور خشیتِ الٰہی سے لبریز ہو۔ شعر میں “دل بہ دست آور” کی تعبیر، حضرت داؤدؑ جیسے سادہ مگر وفادار چرواہے کی مثال ہے، جن کا دل ربّ کو زیادہ محبوب تھا بہ نسبت اُن کے جو صرف ظاہری جلال رکھتے تھے۔


نتائج:

  1. اللہ تعالیٰ کی نگاہ کا معیار ظاہر نہیں بلکہ باطن ہے:
    اس سبق سے یہ گہرا پیغام ملتا ہے کہ ربّ تعالیٰ انسان کے چہرے، لباس، رتبے یا جسمانی قوت کو نہیں دیکھتا، بلکہ اُس کے دل کی کیفیت، نیت کی سچائی، اور اخلاص کی گہرائی کو دیکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت داؤدؑ جیسا سادہ چرواہا ربّ کا محبوب بن کر بادشاہ مقرر ہوا۔
  2. قیادت کا حق اُنہیں ملتا ہے جن کے دل ربّ سے جُڑے ہوں:
    ربّ کی طرف سے قیادت کا انتخاب اُن افراد کے لیے ہوتا ہے جو دنیاوی نمائش سے بے نیاز، مگر ربّ کی رضا کے طلبگار ہوتے ہیں۔ جو تنہائی میں ذکر کرتے ہیں، جن کے دلوں میں عاجزی ہے اور جو خود کو ربّ کی حضوری میں کمترین جانتے ہیں۔
  3. ظاہری خوبیوں پر فخر کرنا روحانی زوال کی علامت ہے:
    حضرت ساؤلؑ کی مثال ہمیں بتاتی ہے کہ جب انسان ربّ کی ہدایت سے انکار کرتا ہے، اور قربانی کو اطاعت پر ترجیح دیتا ہے، تو وہ ربّ کی رضا سے محروم ہو جاتا ہے، چاہے وہ کتنے ہی بڑے مقام پر فائز ہو۔
  4. ربّ کا چناؤ ہمیشہ حکمت سے بھرپور ہوتا ہے:
    حضرت سموئیلؑ کے تجربے سے ہمیں سیکھنے کو ملتا ہے کہ اگرچہ انسان حیران ہوتا ہے، لیکن ربّ کبھی غلط فیصلہ نہیں کرتا۔ وہ جسے چُنتا ہے، اُس میں وہ خزانے ہوتے ہیں جو وقت آنے پر ظاہر ہوتے ہیں۔
  5. روحانی عظمت، خلوت و بندگی سے جنم لیتی ہے:
    حضرت داؤدؑ کی چرواہی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ وہ جو تنہائی میں ربّ سے جُڑ جاتے ہیں، وہی جلوت میں ربّ کی بادشاہت کے امین بنتے ہیں۔

اختتامیہ:

یہ سبق ہمیں اُس وقت کی یاد دلاتا ہے جب دنیا کے پیمانے اور ربّ تعالیٰ کے پیمانے آمنے سامنے آتے ہیں۔ دنیا طاقت، صورت، نسب اور دولت کو عظمت کا معیار سمجھتی ہے، مگر ربِ کریم کے نزدیک عظمت اُس دل کو حاصل ہے جو اُس کے ذکر میں نرم ہے، جو سجدے کی مٹی کو تاج سے زیادہ عزیز جانتا ہے، اور جس کی آنکھیں لوگوں کی نظر سے چھپی رہ کر اشکوں میں اُس کی بارگاہ میں بہتی ہیں۔
حضرت داؤدؑ کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ انسان اگر ربّ تعالیٰ کے حضور مخلص ہو جائے، تو وہ چراگاہوں سے اُٹھا کر اُسے مسندِ سلطنت پر فائز کر دیتا ہے۔ اور یہ بھی کہ ربّ کا انتخاب انسان کے ظاہری جاہ و جلال پر نہیں بلکہ اُس کے باطنی نور اور خشیت پر ہوتا ہے۔