کنعان کی جاسوسی اور راحب کی وفاداری
جب کسی اُمت کو ربِ العالمین اپنے وعدے کی سرزمین کی طرف بڑھاتا ہے، تو اُس کا ہر قدم آزمائش کے سنگِ میل سے گزرتا ہے۔ کنعان کی سرحدوں پر قدم رکھنے سے پیشتر، حضرت یشوع بن نونؑ نے وہی حکمت عملی اپنائی جو کبھی حضرت موسیٰؑ نے رب تعالیٰ کے حکم سے اختیار فرمائی تھی یعنی زمین کی کیفیت جاننے کے لیے دو باوفا مردانِ ایمان کو چُنا، تاکہ وہ نہ صرف قوم کو زمینی حقیقت سے آگاہ کریں، بلکہ اُن کے دلوں میں رب کے وعدے کی صداقت کا نور بھی پیدا کریں ۔مگر اس مرتبہ یہ مہم صرف زمین کے احوال کے لیے نہ تھی؛ بلکہ اس کے پسِ پردہ رب العزت کی حکمت ایک ایسے دل کو ہدایت کی طرف بلانے والی تھی، جو ظاہراً گناہوں سے لبریز کنعانی شہر میں بسا ہوا تھا، مگر باطن میں نورِ رب تعالیٰ کا طلب گار تھا اور وہ دل راحب کا تھا، جسے ربِ کریم نے نجات کے وعدے سے جوڑ کر تاریخِ ایمان کا حصہ بنا دیا۔
دو جاسوسوں کی روانگی
حضرت یشوع بن نونؑ نے یردن کے پار واقع یریحو (اریحا) کے شہر کی طرف دو افراد کو خاموشی کے ساتھ روانہ فرمایا، تاکہ وہ اس شہر کے حالات، قلعہ کی مضبوطی، اور اہلِ شہر کے حوصلوں کا اندازہ کریں۔ یہ سفر فقط زمین کی جانچ کا مشن نہ تھا، بلکہ ایمان، حیا، اور اطاعت کی روشنی میں ایک خاموش و رازدارانہ مہم تھی۔ وہ دونوں افراد شہر میں داخل ہوئے اور راحب نامی ایک خاتون کے گھر فروکش ہوئے جو اگرچہ ظاہری طور پر ایک بدنام پیشے سے منسوب تھی، مگر دل کی گہرائی میں ربِ اسرائیل کی عظمت کو پہچان چکی تھی۔
راحب کا ایمان، سرخ رسی کا نشان
جب بادشاہِ یریحو کو یہ اطلاع ملی کہ بنی اسرائیل کے دو مرد اُس کے شہر میں داخل ہو چکے ہیں، تو اُس نے فوراً راحب کے گھر قاصد روانہ کیے۔ مگر راحب، جو فہم و بصیرت سے لبریز عورت تھی، اُن دونوں مہمانوں کو چھت پر بھوسے کے نیچے چھپا چکی تھی۔ اُس نے بادشاہ کے آدمیوں سے کہا: “ہاں، وہ مرد میرے پاس آئے تھے، مگر میں نہیں جانتی وہ کہاں سے آئے، اور جب شہر کا دروازہ بند ہوا تو وہ نکل چکے تھے۔ تم جلدی کرو، شاید اُنہیں پا لو۔”
لیکن جب رات کی پردہ داری نے شہر کو خاموشی کی چادر اوڑھا دی، راحب چھت پر گئی، اور اُن دونوں مہمانوں سے کہا:
“مجھے علم ہے کہ رب العالمین نے یہ زمین تمہیں عطا فرما دی ہے، اور ہمارے دل تمہارے خوف سے پگھل چکے ہیں۔ ہم نے سنا ہے کہ رب پاک نے تمہارے لیے بحرِ قلزم کو خشک کیا، اور شرقِ اردن کے بادشاہوں کو تمہارے ہاتھوں ہلاک کیا۔ تمہارا رب، وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔”
پھر اُس نے نہایت عجز و انکسار سے کہا:
“پس اب تم رب العزت کے نام پر مجھ سے عہد لو کہ جیسے میں نے تم پر رحم کیا، ویسے ہی تم میرے والدین، میرے بھائیوں، اور میرے سارے خاندان پر رحم کرو گے اور ہمیں زندگی بخشو گے۔”
راحب نے صرف ایمان نہ لایا، بلکہ ایمان کو اپنے اہلِ خانہ کے لیے فدیہ اور سلامتی کا ذریعہ بنایا۔
بنی اسرائیلی قاصدوں نے کہا:
“ہم تمہارے ساتھ سچائی اور وفاداری سے پیش آئیں گے۔ یہ سرخ رسی، جسے تم کھڑکی سے لٹکاؤ گی، ہمارے لیے نشان ہو گی یہی علامت ہو گی کہ تمہارا گھر رب تعالیٰ کی امان میں ہے۔”
یہ سرخ رسی فقط ایک ظاہری بندھن نہ تھی، بلکہ ربِ کریم کے وعدۂ رحمت کی زمینی تجلی تھی جو ایک گناہوں سے لپٹی بستی میں رب العالمین کی طرف سے اُمید، تحفظ اور ہدایت کا لٹکتا ہوا پیغام بن گئی تھی۔”
کنعان کی خوف زدہ فضا
اسرائیلی جاسوس جب واپس لوٹے، تو حضرت یشوع بن نونؑ کی خدمت میں عرض گزار ہوئے کہ اہلِ یریحو پر خوف کی چادر طاری ہے، اُن کے دل لرزاں ہیں، اور زمین ان کے قدموں تلے جھکنے کو آمادہ ہے۔ اُنہوں نے یقین سے کہا: “یقیناً ربِ ذوالجلال نے ساری سرزمین ہمارے سپرد کر دی ہے، اور اہلِ کنعان ہمارے روبرو بےبس ہو چکے ہیں۔”
حضرت مولانا رومؒی
گنجِ ایمان در دلِ گمراہ بود در سرائے غفلت، نورِ الٰہ بود
ترجمہ:
ایمان کا خزانہ گمراہ کے دل میں چھپا ہوا تھا، اور غفلت کے گھر میں نورِ خدا جلوہ گر تھا۔
تشریح:
راحب کی حکایت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ربِ کریم اپنی ہدایت اُن دلوں میں بھی نازل فرما دیتا ہے، جو بظاہر ظلمت کے پردوں میں لپٹے ہوں۔ اُس نے ایک گناہ آلود بستی کی عورت کے دل میں وہ خوفِ الٰہی اور نورِ ایمان پیدا فرمایا، جس کے سبب نہ صرف اُس کا سارا خاندان محفوظ ہوا، بلکہ اُس کا ذکر تاریخِ مقدس میں دائمی عزت و وقار کے ساتھ محفوظ ہو گیا۔
نتائج
راحب کا کردار اس حقیقت کا آئینہ ہے کہ رب العالمین کی نصرت اور ہدایت کسی قبیلے، نسب، یا ظاہری حیثیت سے مشروط نہیں ہوتی؛ بلکہ وہ دل ہی رب تعالیٰ کا قرب پاتا ہے جو اُس کے حضور جھک جائے اور صدق کے ساتھ طلب کرے۔
اسرائیلی جاسوسوں کا مشن صرف جنگی حکمتِ عملی نہ تھی، بلکہ ایمان، عرفان، اور رب کی حکمت کا ایک جلوہ تھا جس میں ظاہری راہوں سے زیادہ باطنی روشنی نمایاں ہوئی۔
وہ سرخ رسی جو راحب کی کھڑکی سے لٹکائی گئی، محض ایک مادی علامت نہ تھی، بلکہ عہد، امان، اور رب تعالیٰ کی رحمت کا ظاہری مظہر بن گئی یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہر شہرِ گناہ میں، رب تعالیٰ کی طرف کھلنے والی ایک کھڑکی ہمیشہ باقی رہتی ہے؛ بس اُسے پہچاننے والا دل درکار ہے۔
اختتامیہ
یہ باب ہمیں سکھاتا ہے کہ ایمان وہاں بھی پروان چڑھ سکتا ہے، جہاں دنیا کو صرف گمراہی اور غفلت دکھائی دیتی ہے۔
حضرت یشوع بن نونؑ کی بصیرت، اسرائیلی جاسوسوں کی وفاداری، اور راحب کی سچائی و تسلیم و رضا ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ جب رب العالمین وعدہ فرماتا ہے، تو وہ ہر اُس دل کو جو جھکنے کو تیار ہو، اپنے نور سے منور فرما دیتا ہے چاہے وہ دل کنعان کی تاریکی میں ہو یا گناہ آلود ماحول میں پنہاں ہو۔
راحب کی کھڑکی سے لٹکی ہوئی وہ سرخ رسی، محض ایک نشانی نہ تھی، بلکہ تاریخ کے اوراق میں رب تعالیٰ کی وفا، رحمت، اور امان کی ایک روشن علامت بن گئی جو آج بھی گواہی دیتی ہے کہ رب العالمین ہر توبہ کرنے والے کو اپنی پناہ عطا فرماتا ہے۔