کورس کا خلاصہ
جب دل رضا کے در پر جھک جائے، اور ارادہ رب کے حکم کے تابع ہو جائے، تو پھر ہر قدم عبادت بن جاتا ہے، اور ہر خاموشی بندگی کی صدا۔ یہ وہ سفر ہے جو قربانی سے شروع ہو کر دعا، انتظار، خواب، ہجرت، اور وارث کی پیدائش تک پھیلتا ہے ایک ایسا روحانی نقش جس میں انسان صرف زمین پر نہیں چلتا، بلکہ آسمان کی طرف بڑھتا ہے۔
پہلا لمحہ اُس گھڑی سے جڑا ہے جب اطاعت کا حکم خامشی میں اُترتا ہے، اور آزمائش دل کی گہرائیوں کو چھو لیتی ہے۔ حضرت اسحاقؑ کی زندگی اسی تسلیم کی مثال ہے، جہاں ہر دعا، ہر قربانی، اور ہر خاموشی رب کی رضا کے لیے تھی۔ وہ خنجر جو گردن تک پہنچتا ہے، وہ ہاتھ جو تھرتھراتا نہیں، اور وہ نگاہ جو سکوت میں بھی یقین سے بھرپور ہوتی ہے یہ اطاعت کی وہ مثال ہے جو وقت کی زبان پر ایک روایت نہیں بلکہ وصال کا مقام بن جاتی ہے۔
اس کے بعد دعا کا دور آتا ہے وہ وقت جب حضرت اسحاقؑ اپنی زوجہ بی بی ربقہؓ کے لیے بیس برس تک دعائیں کرتے ہیں۔ صبر کے ان برسوں میں ایک دعا بظاہر خاموش، مگر دل کی گہرائی سے جاری رہتی ہے۔ جب جواب آتا ہے، تو وہ دو بچوں کی صورت میں آتا ہے جن کے بطن میں دو قوموں کی بنیاد چھپی ہوتی ہے۔ وہ بطن جس میں ہلچل ہو، وہ پیغام جس میں تقدیر ہو، اور وہ اعلان جس میں برتری کی رمز ہو یہ وہ لمحہ ہے جہاں دعا، وقت، اور حکمت ایک ساتھ ظہور کرتے ہیں۔
پھر خواب کا دروازہ کھلتا ہے حضرت یعقوبؑ کا تنہا سفر، بیابان میں ایک پتھر کے سرہانے، اور آسمان کی طرف جاتا زینہ۔ فرشتوں کا اترنا اور چڑھنا، اور پھر وہ آسمانی صدا جو دل کی گہرائی میں اُترتی ہے: “میں تیرے ساتھ ہوں۔” یہ خواب فقط تسلی نہیں بلکہ ایک عہد ہے اور اسی خواب میں حضرت یعقوبؑ کو ایک نیا نام عطا کیا جاتا ہے: “اسرائیل” یعنی غالب آنے والا۔ وہ پہچان جو صرف ایک فرد کی نہیں بلکہ ایک قوم کی بنیاد بن جاتی ہے۔
آخرکار وہ لمحہ آتا ہے جہاں حضرت یعقوبؑ کو خیمہ، ازواج، اور نسل کی نعمت عطا ہوتی ہے۔ وہ نسل جس میں بارہ بیٹے پیدا ہوتے ہیں، اور ہر ایک ایک قبیلہ بن کر امت کی بنیاد بنتا ہے۔ بی بی راحلہؓ کی جدائی، حضرت بنیامینؓ کی ولادت، اور پھر حضرت اسحاقؑ کی تجہیز۔ یہ سب وہ لمحات ہیں جو دکھ اور تسلیم، وصال اور فنا کو ایک ہی مقام پر جمع کرتے ہیں۔
جب دل کے پردے ہلتے ہیں، اور نگاہ خواب سے حقیقت کی طرف بڑھتی ہے، تب ایک آخری سانس میں وراثت مکمل ہو جاتی ہے۔ حضرت یعقوبؑ کے بیٹے جب اپنے دادا کی تدفین کرتے ہیں، تو وہ صرف جسم کو مٹی نہیں سونپتے بلکہ عہد اور برکت کو نسلوں تک پہنچا دیتے ہیں۔ وہی نسل جو “بنی اسرائیل” کہلاتی ہے اور جس کے ذریعے وعدوں کا نور زمانے تک پھیلتا ہے۔
اختتامیہ:
یہ سفر ہمیں سکھاتا ہے کہ ہر اطاعت میں وفاداری چھپی ہے، ہر دعا میں صبر کا رنگ ہوتا ہے، ہر خواب میں وعدے کی روشنی ہوتی ہے، اور ہر وراثت میں نسلوں کی رہنمائی چھپی ہوتی ہے۔ یہ سبق ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ جب بندہ اللہ کے وعدوں پر ایمان رکھ کر چلتا ہے، تو وہ صرف منزل نہیں پاتا بلکہ راہ کو بھی برکت دے جاتا ہے۔
دعا:
اے ربِّ علیم، ہمیں حضرت اسحاقؑ جیسا صبر عطا فرما، جو تیری رضا پر راضی رہے۔ ہمیں بی بی ربقہؓ جیسی دعا نصیب فرما، جو خاموشی میں تجھ سے لو لگائے رکھے۔ ہمیں حضرت یعقوبؑ جیسا یقین عطا فرما، جو تنہائی میں بھی تیرا قرب محسوس کرے۔ اور ہمیں بنی اسرائیل کی اُس روشنی کا حصہ بنا، جو تیری طرف بلاتی ہے۔
اے رب، ہمارے خوابوں کو اپنے وعدوں سے جوڑ دے، ہماری نسلوں کو اپنی برکتوں کا وارث بنا، اور ہمارے ہر قدم کو اُس وراثت کی طرف لے جا، جس میں تیرا نور، تیرا فضل، اور تیری رضا ہو۔
آمین یا رب العالمین