کورس کا خلاصہ
یہ وہ لمحہ تھا جب تقدیر نے خواب کی دہلیز سے گزر کر حضرت یوسفؑ کو شاہی دربار کی روشنی میں داخل کیا۔ وہ جو قیدخانے کی دیواروں کے درمیان بصیرت بانٹتے تھے، اب سلطنتِ مصر کے تاجداروں کو تعبیر کے آئینے میں مستقبل دکھا رہے تھے۔ فرعون کی نیند جس خواب کے باعث بکھر گئی تھی، اُسی خواب کی تعبیر نے حضرت یوسفؑ کو تختِ حکمت پر بٹھا دیا۔ ان کی دانش، ان کی تدبیر، اور ان کا وقار ایک ایسی روشنی بن گیا جو مصر کی رعایا کو قحط کی تاریکی سے بچانے کے لیے کافی تھا۔
ربّ العزت نے جسے قید سے نکال کر وزیر بنایا، وہ نہ صرف خزانوں کا ناظم ہوا بلکہ قلوب کا فاتح بھی۔ حضرت یوسفؑ نے پوری سلطنت میں اناج جمع کر کے ایسا نظم قائم کیا کہ قحط کے ایّام میں بھی مصر برکت کا نمونہ بن گیا۔ یہ وہ مقام تھا جب صداقت، حلم، اور پاکیزگی سلطنت کا دستور بن گئے۔
اسی دوران، قحط کے مارے وہ چہرے مصر آئے جنہوں نے برسوں پہلے حضرت یوسفؑ کو غلامی کی راہوں پر دھکیل دیا تھا۔ بھائی آئے، تعظیم میں جھکے، مگر پہچان نہ سکے۔ حضرت یوسفؑ نے ان سے سخت کلامی کی، آزمائش کی، مگر دل میں درد زندہ تھا۔ خواب کی تعبیر آنکھوں کے سامنے جھلک رہی تھی، مگر وہ خاموش رہے — صبر کی زبان سے۔ شمعونؓ کو قید میں رکھا، اناج بھی دیا، اور رقم بھی واپس رکھی — تاکہ صداقت کی اگلی قندیل روشن ہو۔
جب وہ واپس گئے، حضرت یعقوبؑ نے بنیامینؓ کے سفر پر اضطراب کا اظہار کیا۔ مگر رب کے ارادے کامل تھے۔ جب بنیامینؓ حضرت یوسفؑ کے حضور پہنچے، تب بھائیوں کی صداقت مزید آزمائی گئی۔ صبر کے مہین لمحوں میں حضرت یوسفؑ نے اپنے جذبات کو روک رکھا، حتیٰ کہ وہ گھڑی آ پہنچی جب ضبط کا بندھن ٹوٹا، اور حضرت یوسفؑ نے فرمایا: میں یوسف ہوں!
خوفزدہ بھائیوں کو تسلی دی: یہ تمہاری خطا نہ تھی، یہ میرے رب کی مشیّت تھی۔ اُس نے مجھے یہاں پہلے بھیجا تاکہ تمہاری بقا کا سبب بن سکوں۔
یہ انکشاف فقط پہچان کا لمحہ نہ تھا، بلکہ وہ دروازہ تھا جس سے توبہ، شفقت، اور وصال داخل ہوئے۔ پھر نہ کوئی شکوہ رہا، نہ کوئی شکایت۔ حضرت یوسفؑ نے بھائیوں کو اپنے والد کے لیے پیغام دیا، تحائف بھیجے، اور فرعون کے فرمان کے مطابق اُن کی عزت و توقیر کا انتظام کیا۔
اختتامیہ
خواب اگر رب کی طرف سے ہوں، تو کنویں کی تاریکی بھی اُن کا راستہ نہیں روک سکتی۔
کردار وہ زینت ہے جو قید میں بھی دلوں پر حکومت کرتا ہے۔
جو دل رب پر یقین رکھے، وہ دشمنوں کے درمیان بھی غلبہ پاتا ہے۔
معافی، ماضی کی سب تلخیوں کو مٹا دیتی ہے اور محبت کو دوبارہ زندہ کر دیتی ہے۔
صبر، وہ زبان ہے جس سے تقدیر خود بات کرتی ہے۔
دعا
یا ربّ العالمین!
ہمیں حضرت یوسفؑ کی سی بصیرت، حضرت یعقوبؑ جیسا صبر، اور ان پاک ہستیوں جیسا حلم عطا فرما۔
ہمارے خوابوں کو اپنی رضا کی تعبیر عطا کر،
اور جب ہم آزمائش کی قید میں ہوں، تو ہمیں تیری رہائی کی روشنی دکھا۔
ہمارے دلوں میں وہ درگزر پیدا کر جو حضرت یوسفؑ نے اپنے بھائیوں کے لیے رکھا،
اور ہمیں وہ یقین عطا کر جو غلامی سے تختِ حکمت تک لے جائے۔
آمین یا رب العالمین۔
درج ذیل سوالات کے جواب دیں