کورس کا خلاصہ

حضرت سموئیلؑ کی حیاتِ طیّبہ ایک ایسی روشنی ہے جس نے بنی اسرائیل کی تاریکیوں میں ہدایت کی شمع روشن کی۔ وہ ایک ایسے زمانے میں پیدا ہوئے جب بنی اسرائیل قوم، ربّ تعالیٰ کی اطاعت سے دور اور دنیاوی خواہشات کے پیچھے سرگرداں تھی۔ حضرت سموئیلؑ کی والدہ کی دعائیں، ان کی نذر، اور ربّ العزت کے حضور اُن کی پرورش، ایک ایسے نبی کے ظہور کا پیش خیمہ تھیں جو وحی، حکمت اور عدالت کا پیکر ہو گا۔

ان کا بچپن عبادت گاہ میں گزرا، جہاں اُن پر پہلی بار ربّ تعالیٰ کا کلام نازل ہوا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ایک بچہ وحی کا امین بنا اور اُس کی آنکھوں نے وہ نور دیکھا جو صرف اولیاء کے دلوں میں اترتا ہے۔ حضرت سموئیلؑ نہ صرف پیغمبر تھے، بلکہ قاضی، عالم، اور ربّ تعالیٰ کے نمائندہ تھے۔ انہوں نے بنی اسرائیل قوم کو گناہوں سے توبہ، قربانی سے خلوص، اور دعا سے نجات کی راہ دکھائی۔

مگر وقت گزرتا گیا، اور بنی اسرائیل نے ایک عجیب مطالبہ کیا “ہمیں ایک بادشاہ چاہیے، جیسے اور قوموں کے پاس ہے”۔ یہ وہ مقام تھا جہاں حضرت سموئیلؑ کی روح کو چوٹ پہنچی، کیونکہ اس مطالبے میں حضرت سموئیلؑ کی قیادت کا انکار اور ربّ العزت کی حکمرانی سے انحراف چھپا ہوا تھا۔ ربّ تعالیٰ نے حضرت سموئیلؑ سے فرمایا: “یہ تجھے نہیں، مجھے رد کر رہے ہیں۔” یہ ایک روحانی آزمائش تھی، جسے حضرت سموئیلؑ نے صبر، وفا اور خاموشی سے قبول کیا۔

حضرت سموئیلؑ نے ربّ تعالیٰ کے حکم سے حضرت ساؤل کو بادشاہ منتخب کیا ایک ایسا انتخاب جس میں بنی اسرائیل قوم کی ظاہری خواہش کو تو تسکین ملی، مگر باطن میں آزمائش کا در قصص کھل گیا۔ حضرت ساؤل کی ابتدا عاجزی سے ہوئی، مگر وقت کے ساتھ وہ نافرمانی، خودرائی اور غرور کا شکار ہو گئے۔ ربّ تعالیٰ کی وحی دوبارہ حضرت سموئیلؑ پر نازل ہوئی “میں نے ساؤل کو رد کر دیا ہے۔”

اب حضرت سموئیلؑ کو ایک نئے نور کی طرف بھیجا گیا۔ حضرت داؤدؑ، جو ایک گمنام چرواہا تھا، مگر ربّ تعالیٰ کے دل کے موافق تھا۔ حضرت سموئیلؑ نے اس کے سر پر ربّی تیل بہایا، اور وہ لمحہ دراصل بادشاہی کی روحانی بنیاد بن گیا۔ یہ بادشاہت صرف تخت کی نہیں، بلکہ ذکر، زبور اور سجدے کی تھی۔

وقت گزرا، حضرت سموئیلؑ خاموش ہو گئے۔ وہ قوم کو نصیحتیں کرتے رہے، مگر جب دنیاوی سیاست غالب آنے لگی، انہوں نے سکوت کو اختیار کیا۔ ان کا سکوت کرب کا اظہار نہ تھا، بلکہ وہ خاموشی تھی جو دلوں میں نور جگاتی ہے۔ اُن کی آخری زندگی رامہ کی گمنامی میں گزری دعا، تفویض اور عبادت میں۔

جب حضرت سموئیلؑ کا وصال ہوا، تو وہ نہ صرف ایک نبی کی موت تھی بلکہ ایک روحانی عہد کا اختتام تھا۔ اُن کی خاموش دعائیں، اُن کی شب بیداری، اور اُن کی بےطلب رہنمائی، نسلوں کے لیے ہدایت کا چراغ بن گئی۔ وہ چلے گئے، مگر اُن کا نور حضرت داؤدؑ کی بادشاہی میں منتقل ہوا ایک ایسی قیادت جو فقر سے پیدا ہوئی اور زبور سے پروان چڑھی۔


اختتامیہ

  1. قیادت، وحی کی اطاعت سے پیدا ہوتی ہے: حضرت سموئیلؑ نے ہمیشہ اپنی قوم کی رہنمائی وحی اور ربّ تعالیٰ کے حکم کی بنیاد پر کی، نہ کہ دنیاوی معیار پر۔ ہمیں سکھایا گیا کہ اصل قیادت بندگی سے پیدا ہوتی ہے، اقتدار سے نہیں۔
  2. نبی کا سکوت، حکمت کی گہرائی رکھتا ہے: حضرت سموئیلؑ کی خاموشی بھی گفتار سے زیادہ بااثر تھی۔ ان کا سکوت ہمیں سکھاتا ہے کہ ہر موقع پر بولنا ضروری نہیں بعض اوقات خاموشی خود دعوت، تعلیم اور احتجاج ہوتی ہے۔
  3. دعا اور صبر، نبی کی سب سے بڑی میراث ہیں: حضرت سموئیلؑ نے ہمیں دکھایا کہ دعا، فریاد نہیں بلکہ یقین کا اعلان ہے۔ ان کی راتوں کی دعائیں اور دن کا سکوت ہمیں اخلاص، بندگی، اور ربّ سے قرب کا مفہوم سکھاتے ہیں۔
  4. باطن کی صفائی، ظاہر سے افضل ہے: حضرت داؤدؑ کا انتخاب اس بات کی دلیل ہے کہ ربّ تعالیٰ دلوں کو دیکھتا ہے، چہروں کو نہیں۔ حضرت سموئیلؑ نے ہمیں تعلیم دی کہ خلوص نیت، عاجزی اور سچائی ہی ربّی چناؤ کا معیار ہیں۔
  5. دنیا کی طلب، روحانی زوال کا آغاز ہے: جب بنی اسرائیل نے بادشاہ مانگا، اور دنیاوی شان و شوکت کو ترجیح دی، تو وہ روحانی انحطاط کی طرف چلے گئے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ دنیا کے پیچھے بھاگنا، دل کی روشنی چھین لیتا ہے۔
  6. نبی، وقت کا آئینہ ہوتا ہے: حضرت سموئیلؑ نے قوم کی حالت کے مطابق ان پر ربّی فیصلے نازل کئے کبھی انکار کیا، کبھی گزر جانے دیا، کبھی عتاب سنایا۔ ان کی زندگی ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ نبی وقت کا نباض ہوتا ہے، وہ ربّ کی رضا کے مطابق عمل کرتا ہے، نہ کہ عوام کی خواہش کے مطابق۔
  7. وصالِ نبی، فراق نہیں بلکہ وراثت کا آغاز ہے: حضرت سموئیلؑ کا وصال ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ نبی کی زندگی ختم نہیں ہوتی ان کی دعائیں، ان کا سکوت، ان کے سجدے اور ان کی وراثت اہلِ دل کے دلوں میں زندہ رہتی ہے۔

دعا

اے ربّ ذوالجلال!
جس نے حضرت سموئیلؑ جیسے پاکیزہ بندے کو اپنی وحی کا امین، قوم کا راہنما، اور دعا کا چراغ بنایا!
ہمیں بھی وہی فہم، وفا، اور خشیت عطا فرما،
جو نبیوں کے سکوت میں سجدہ بن کر جھک جائے، اور زبان کے بغیر بھی ہدایت دے۔

اے ربّ نور و حکمت!
ہمیں ظاہری بادشاہی کی طلب سے بچا کر
حضرت سموئیلؑ کے باطن کی روشنی سے حصہ عطا فرما۔

اے کریم پروردگار!
ہمیں انبیائے کرام کی مانند
صبر کے ساتھ فیصلہ سننے،
اخلاص کے ساتھ قیادت کرنے،
اور دعا کے ساتھ قوموں کی اصلاح کا فہم عطا فرما۔
آمین، یا ربّ العالمین۔