کورس کا خلاصہ
وہ وقت بھی آیا جب ایک گمنام چرواہا، جس کے ہاتھ میں صرف بانسری اور دل میں رب تعالیٰ کی محبت تھی، آسمانی انتخاب سے ایسی بادشاہی کا وارث بنا، جس کا مرکز نہ صرف تخت و تاج تھا بلکہ ایک ایسا دل تھا جو خالقِ کائنات کی رضا کا طالب تھا۔ حضرت داؤدؑ کی داستان ایک ایسے نوجوان کی ہے جو رب تعالیٰ کے نور سے مزین تھا، جس نے جالوت جیسے جابر کے مقابلے میں صرف ایمان، توکل اور رب تعالیٰ کے نام کی لاج سے فتح حاصل کی۔ اس کی فتح نہ پتھر تھی نہ قوت، بلکہ یقین کا وہ لمحہ تھا جہاں زمین نے عاجزی کی اور آسمان نے نصرت نازل کی۔
جب حضرت ساؤل نے دشمنی کی آگ میں جھلسا، تب حضرت داؤدؑ نے عفو، صبر اور ادب سے جواب دیا، حتیٰ کہ اپنے دشمن کی جان بخش دی اور رب تعالیٰ کی مشیت کے خلاف ہاتھ نہ اٹھایا۔ آزمائشوں کا یہ سلسلہ آسان نہ تھا، غاروں میں چھپنا، در بدر پھِرنا، محبوب وطن سے دوری، مگر ہر لمحہ رب تعالیٰ کے قریب، اور ہر آہ ایک مناجات میں ڈھلتی رہی۔
جب حضرت داؤدؑ نے اقتدار سنبھالا تو یہ فقط سیاسی فتح نہ تھی، بلکہ الٰہی وعدوں کی تکمیل تھی۔ تابوتِ عہد کو واپس لا کر انہوں نے نہ صرف بنی اسرائیل قوم کو روحانی مرکز سے جوڑا، بلکہ اس کے ادب و احترام میں ایسی شان دکھائی جو دلوں پر نقش ہو گئی۔ حضرت داؤدؑ خود بادشاہ تھا، مگر تابوتِ عہد کے سامنے رقاصِ عاجز بن گیا یہی تھی روحانی قیادت کی اصل پہچان۔
رب تعالیٰ نے حضرت داؤدؑ کو وہ بشارت عطا کی جو دائمی بادشاہی کی بنیاد بنی۔ نہ صرف زمینی فتوحات، بلکہ قلبی فتح اور رعایا میں عدل قائم کرنا اُس کی سیرت کا درخشاں پہلو تھا۔ جنگ کے میدان سے لے کر عدالت کی کرسی تک، وہ ہر لمحہ اپنے ربّ کی رضا کا طلبگار رہا۔
لیکن حضرت داؤدؑ بھی انسان تھا۔ جب گناہ کا لمحہ آیا، تو حضرت داؤدؑ نے اُس خطا کا اعتراف کیا جو بادشاہوں کو گرا سکتی ہے، مگر نبیوں کو جھکا کر اٹھا بھی سکتی ہے۔ اُس کی توبہ فقط الفاظ نہیں تھی، بلکہ اشکوں، آہوں اور زبور کے نغموں سے سجی ایک ایسی حیاتِ نو تھی جس نے پوری انسانیت کو سکھایا کہ خطا کا در کبھی بھی توبہ کے نور سے بند نہیں ہوتا۔
جب ابشالوم نے بغاوت کی، تو داؤدؑ کا دل ایک باپ کے طور پر خون کے آنسو رو رہا تھا۔ اُس نے جنگ نہیں، دعا کی؛ انتقام نہیں، صبر کا جام پیا۔ یہی وہ لمحے تھے جو حضرت داؤدؑ کی بادشاہی سے زیادہ اُس کے باطنی سلاطین ہونے کا اعلان تھے۔
حضرت داؤدؑ کا مناجات نامہ، زبور کے صفحات پر پھیلا وہ الہامی نغمہ ہے جس میں ہر تائب، ہر عاشقِ حق، اور ہر درد مند دل کو سکون ملتا ہے۔ وہ گیت جن میں خوفِ خدا بھی ہے، امید بھی، شکستگی بھی ہے، اور حضوری کی جھلک بھی۔
جب حیاتِ ظاہری کے آخری لمحے آئے، حضرت داؤدؑ نے اپنے فرزند حضرت سلیمانؑ کو صرف تخت نہ دیا، بلکہ رب تعالیٰ کے احکام، عدل کی راہ، اور تقویٰ کی چابیاں سونپ دیں۔ یہ وصیت نہ صرف سلیمانؑ کے لئے، بلکہ ہر اُس رہنما کے لئے ہے جو دنیا میں اختیار پائے کہ اصل قیادت وہی ہے جس کی بنیاد خوفِ خدا، علم و حلم، اور عدل پر ہو۔
یوں حضرت داؤدؑ کی زندگی ہمیں بتاتی ہے کہ رب کے راستے پر چلنے والے گرتے بھی ہیں، مگر سنبھالے بھی جاتے ہیں؛ وہ روتے بھی ہیں، مگر اُن کے اشک دعا بن کر آسمان پر قبولیت پاتے ہیں؛ وہ خاموش بھی ہوتے ہیں، مگر اُن کی تسبیح فضا میں گونجتی رہتی ہے۔
دعا
اے ربِّ جلیل!
ہم تجھ سے فریاد کرتے ہیں، کہ حضرت داؤدؑ کی سیرت ہمارے دلوں میں حکمت، عجز، عدل اور توبہ کی روح کو بیدار کرے۔
اے ربِ کریم! ہمیں ایسا دل عطا فرما جو چرواہے کی سادگی، نبی کی حضوری، اور بادشاہ کی ذمہ داری سے معمور ہو۔
اے رب العزت! ہمیں وہ زبان دے جو تیرے ذکر سے نم ہو، وہ آنکھیں دے جو اشکوں سے پاک ہو جائیں، اور وہ دل دے جو تیری رضا میں مطمئن ہو جائے۔
اے ربِ کائنات! ہماری قیادت، ہماری خدمت، اور ہماری عبادت کو داؤدی سجدے جیسا اخلاص عطا فرما۔ اور جب ہم لغزش کریں، تو داؤد کی توبہ کی طرح رجوع کی راہیں کھول دے۔
اے رب کریم! ہمیں بھی اُس حضوری میں جگہ دے جہاں حضرت داؤدؑ کے نغمے گونجتے ہیں، اور جہاں ہر دل تیرے قرب کی روشنی میں فنا ہوتا ہے۔
آمین یا رب العالمین۔