کورس کا خلاصہ

روحانیت کے افق پر جب ظلمت کے سائے گہرے ہو چلے تھے اور دلوں میں ہدایت کی طلب باقی رہ گئی تھی، تب قدرتِ ازلی نے ایک ایسا نور ظاہر فرمایا جس نے تاریخ کے دھندلکوں کو پارہ پارہ کر کے انسانیت کو ایک نیا سویرا عطا کیا۔ یہ نورِ ہدایت، یہ چشمۂ زندگی، یہ کلمۃُ اللہ، کوئی اور نہیں بلکہ سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی ذاتِ اقدس تھی جن کی ولادت، نسب اور بعثت میں ہر لمحہ ربانی اسرار کی خوشبو پوشیدہ ہے۔

سیدنا حضرت عیسیٰؑ کا نسبِ مبارک عظیم المرتب ہستی حضرت ابراہیمؑ سے جڑتا ہے جن کے سینے میں الہام کی چنگاریاں روشن رہیں اور جن کی نسل میں رب تعالیٰ نے اپنے نور کو جاری فرمایا۔ حضرت جبرائیلؑ وہ حاملِ بشارت تھے جو حضرت مریمؑ، اُس عفت شعار و پاکیزہ نفس کے حضور نازل ہوئے اور انہیں وہ مژدۂ عظیم سنایا جسے سن کر فرشتے بھی سجدۂ تعظیم میں ڈھل گئے۔

پھر جب ولادت کا وہ ساعتِ مقدسہ طلوع ہوا، تو زمین و آسمان پر سکوت طاری ہو گیا۔ نہ کوئی صدا، نہ کوئی آہٹ، بس نور ہی نور تھا۔ جھولے میں وہی نو مولود تھا جس کے لبوں پر کلامِ الٰہی جاری ہو گیا۔ وہ لمحہ تھا جب بچپن میں ہی نبوت کا پرچم بلند ہوا اور زمین پر عدل، سچائی اور معرفت کا پیام عام ہو گیا۔

حضرت شمعونؑ جیسے ولی مزاج بزرگ نے جب اس نورانی طفل کو اپنے بازوؤں میں لیا، تو دل کی آنکھیں کھل گئیں اور زبانِ حال پکار اٹھی کہ یہی وہ موعود نجات دہندہ ہے جس کی آمد کا وعدہ کلامِ قدیم میں دیا گیا تھا۔

شعور کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی، سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے عبادت گاہوں کے بام و در ہلا دیے۔ علماءِ وقت اُن کی فہم و فراست، حکمتِ گفتار اور اسرارِ کلام سے محو حیرت رہ گئے۔ یہ اعلان تھا کہ اب وحی کا چشمہ پھر سے جاری ہے اور رب کا پیغام ایک نئی زبان میں جلوہ گر ہونے کو ہے۔

دریائے یردن کے کنارے جب سیدنا حضرت عیسیٰؑ پر الہام کا نزول ہوا، تو آسمان سے صدائے ملکوتی بلند ہوئی
“یہ میرا محبوب ہے، جس سے میں راضی ہوں”
یہ اعلانِ ربانی درحقیقت وہ کلمہ تھا جس نے نبوت کے دروازے کو پوری بشریت کے لیے وا کر دیا۔

مگر آزمائش سے مبرّا کوئی نہیں۔ چالیس دن کا وہ تنہائی کا عالم جہاں شیطان نے فریب، لالچ، بھوک اور غرور کے تیر آزمائے، وہاں سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے ہر وسوسے کا جواب صبر و حکمت سے دیا۔ اُن کی استقامت ایک روحانی میراث بن گئی جو ہر سچے سالک کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

تبلیغ کا آغاز جب ہوا، تو وہ اپنے ہی وطن میں تمسخر کا نشانہ بنے۔ لیکن جب اُنہوں نے عبادت گاہ میں حضرت اشعیاؑ کی نبوت کی تکمیل کو اپنی زبانِ مبارک سے بیان فرمایا، تو لوگوں نے اُن کے خلاف زبان درازی کی۔ اس پر آپؑ نے فرمایا
“نبی اپنے وطن میں توقیر نہیں پاتا”
یہ وہ لمحہ تھا جب حق نے اپنی تنہائی سے روشنی کے سفر کا آغاز کیا۔

اور پھر وہ دن آیا جب آپؑ نے بارہ پاکیزہ دلوں کو اپنی صحبت کے لیے چنا۔ وہ حواریینؓ، جن کے چہرے نور سے دمکتے تھے، آپؑ کے کلام کے امین، آپؑ کے مشن کے محافظ، اور آپؑ کے عشق میں فنا ہونے والے رفیق تھے۔ ان کا انتخاب دراصل دعوتِ حق کے قافلے کی بنیاد تھی جو قیامت تک روحوں کو بیدار کرتا رہے گا۔

یوں حضرت عیسیٰؑ کی ابتدائی زندگی، ولادت سے لے کر حواریین کے انتخاب تک، ایک مسلسل روحانی تربیت، ایک نوری سلسلہ، اور ایک آسمانی درسگاہ تھی جس سے وفا، قربانی، دعا، حق، نبوت، اور نجات کے اسرار جھلکتے ہیں۔


دعا برائے فہمِ روحانی

اے ربِّ قدوس، اے پروردگارِ انوار
تو وہی ہے جس نے ظلمتوں کے پردوں میں نورِ مسیحؑ کو جگمگایا، جس نے حضرت مریمؑ کی جھولی میں ایک ایسی امانت رکھی جس کا نور آسمان سے زمین تک پھیل گیا۔
اے رب العرش، تو نے حضرت عیسیٰؑ کے ذریعے نہ صرف ایک امت کو بیدار کیا بلکہ ہر دل کو عشقِ ربانی کی طرف متوجہ کر دیا۔

اے ربِ رحیم
جس طرح تُو نے حضرت عیسیٰؑ کو چالیس دن کی خلوت میں آزمائشوں سے گزارا اور اُنہیں اپنے کلام سے ثابت قدم رکھا، ہمیں بھی ہمارے اندرونی ریگزاروں میں اُسی استقامت سے سرفراز فرما۔

اے خالقِ ارض و سما
ہم پر وہی رحمت نازل فرما جو تُو نے حضرت عیسیٰؑ پر کی۔ اُن کی صدا ہمارے دلوں میں زندہ رہے، اُن کی تعلیمات ہماری روح کا زادِ سفر بنیں، اور اُن کی محبت ہماری نجات کا وسیلہ بنے۔
آمین ثم آمین یا ارحم الراحمین