کورس کا خلاصہ
حضرت آدمؑ کی تخلیق کے بعد ربِّ کریم نے اُنہیں جنتِ عدن میں بسایا، جہاں ہر نعمت موجود تھی علم، سکون، حسنِ فطرت اور اطاعت کی راہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود، حضرت آدمؑ کے دل میں ایک خاموش خلاء تھا ایک روحانی تنہائی، جو اُن کی فطرت کا حصہ تھی۔
یہی وہ لمحہ تھا جب ربِّ ذوالجلال نے اپنی حکمت کا جلوہ دکھایا۔ اُس نے ارادہ فرمایا کہ آدمؑ کے لیے ایک ایسا وجود تخلیق کرے، جو اُن کی ذات سے ہو، اُن کے دل کی ہم نوا ہو، اُن کے احساس کو سمجھے اور اُن کے ساتھ زندگی گزارے۔ چنانچہ حضرت آدمؑ کو نیند عطا کی گئی، اور اُن کی پسلی سے ایک رفیق کو پیدا فرمایا۔
یہ تخلیق محض جسمانی نہ تھی، بلکہ یہ محبت، انسیت، ہم آہنگی اور روحانی سکون کی بنیاد تھی۔
جب حضرت آدمؑ نے اپنے سامنے اُس وجود کو پایا، تو فرمایا:
“یہ میری مانند ہے، میرے جسم سے ہے، میری ہی جان کی ایک صورت ہے۔”
یہی وہ لمحہ تھا جس سے رفاقت، محبت، اور ازدواجی زندگی کا الٰہی تصور دنیا میں قائم ہوا۔
یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ:
ہم نے اس سبق سے کیا سیکھا؟
- ربّ تعالیٰ انسان کی ظاہر و باطن دونوں ضرورتوں کا خیال رکھتا ہے۔
- محبت اور رفاقت خالص الٰہی عطا ہے، جو سکونِ قلب کا ذریعہ بنتی ہے۔
- تنہائی، اگرچہ صبر کا میدان ہے، مگر ربّ کی حکمت سے مکمل ہوتی ہے۔
- مرد و عورت کا تعلق عزت، برابری، اور باہمی فطرت پر قائم ہے۔
- ہر تعلق ربّ کی امانت ہے، جسے نبھانا بھی عبادت ہے۔
دعا:
اے ربِّ رحیم!
تو نے حضرت آدمؑ کو علم سے نوازا،
اور پھر اُن کے دل کی تنہائی کو انسیت کے نور سے بھر دیا۔
ہم بھی تیری مخلوق ہیں،
ہماری ظاہری اور باطنی ضرورتوں کو تو ہی بہتر جانتا ہے۔
اے مالکِ دل و جان!
ہمیں ایسی رفاقت، ایسی محبت، اور ایسا سکون عطا فرما
جو تیری رضا کے تابع ہو۔
ہمیں اپنے تعلقات میں ادب، حلم، وفا، اور رحمت عطا فرما،
تاکہ ہم اُنہیں تیری امانت سمجھ کر نبھائیں۔
یا الٰہی!
جس طرح تُو نے حضرت آدمؑ کی دعا سن لی،
اسی طرح ہماری تنہائیوں کو بھی محبت، بصیرت، اور قربِ الٰہی سے بدل دے۔
آمین یا ربّ العالمین