کورس کا خلاصہ
یہ کورس انسان کی ابتدائی آزمائشوں، اُس کی پہلی کمزوری، اور شیطان کے فریب کی حقیقت کو بیان کرتا ہے۔
ہم نے سیکھا کہ وسوسہ تلوار کی طرح نہیں آتا—بلکہ ایک سوال، ایک خیال، ایک خاموش سرگوشی کی صورت میں دل میں اترتا ہے۔
شیطان نے نافرمانی کی ابتدا حکمِ رب پر سوال اٹھا کر کی۔ وہ کسی فانی دشمن کی مانند نہیں آیا، بلکہ خود کو ناصح، خیرخواہ، اور علم کا پیغامبر ظاہر کیا۔
لیکن اُس کی اصل چال یہ تھی کہ وہ ربّ کی رضا کو “محدود اختیار” کے طور پر پیش کرتا ہے، اور گناہ کو “خود ارادی بصیرت” کے روپ میں۔
ہم نے دیکھا کہ انسان کی کمزوری اُس کی عقل نہیں، اُس کا دل ہے۔
پھل خوش رنگ تھا، درخت پر پھل پک چکا تھا، اور وعدہ بصیرت کا تھا۔
مگر نتیجہ؟ برہنگی، شرمندگی، اور اضطراب۔
انسان نے نافرمانی کی، مگر ساتھ ہی پہچان، ندامت اور پردہ پوشی کی کوشش بھی کی۔
یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ انسان خطا کا پیکر ہے،
مگر وہی انسان جب اپنی خطا پہچان لے، تو ربّ کے سب سے قریب ہو جاتا ہے۔
ہم نے اس کورس میں یہ سیکھا:
وسوسہ دل میں داخل ہونے والا پہلا تیر ہے — اگر روکا نہ جائے تو نافرمانی میں بدلتا ہے۔
ہر وہ وعدہ جو اطاعت سے ہٹ کر بصیرت کا ہو، گمراہی کی چال ہو سکتا ہے۔
فریب ہمیشہ خوبصورت الفاظ، سچے لہجوں، اور میٹھے جملوں میں لپٹا ہوتا ہے۔
نافرمانی کے بعد شرمندگی انسان کی روح کو جگاتی ہے،
اور توبہ انسان کو دوبارہ رب کی طرف لے جاتی ہے۔
شیطان کبھی زبردستی نہیں کرتا — وہ صرف دروازہ کھٹکھٹاتا ہے،
فیصلہ انسان کا اپنا ہوتا ہے۔
دعا:
یا ربّ السماوات و الارض،
اے بصیرت عطا فرمانے والے،
ہماری نگاہوں کو وہ نور دے جو حق اور باطل کے بیچ فرق کر سکے۔
ہماری عقلوں کو وہ حکمت دے جو تیرے حکم کو بغیر دلیل کے تسلیم کرے۔
ہمیں ان وسوسوں سے محفوظ فرما جو دل میں نافرمانی کے بیج بوتے ہیں۔
ہمیں اس پہلی لغزش سے سبق لینے والا بنا، نہ کہ اس کو دہرانے والا۔
اے غفّار، اے ستّار،
جیسے تُو نے آدمؑ کو خطا کے بعد بخش دیا،
ویسے ہی ہمیں بھی توبہ کی توفیق عطا فرما۔
اور ہمیں اُن بندوں میں شامل فرما
جو تیرے نور میں زندگی گزارتے ہیں،
اور تیرے حکم پر فنا ہو جاتے ہیں۔
آمین یا ربّ العالمین۔