کورس کا خلاصہ

جب زمین ظلم، فساد، اور نافرمانی سے بھر گئی، تو خالقِ حقیقی نے انسانیت کی ہدایت کے لیے حضرت نوحؑ کو منتخب فرمایا۔ اُن کی پیدائش ہی ایک نویدِ تسلی تھی، جیسے ربّ تعالیٰ نے ظلم میں ڈوبی دنیا کو تسکین کا ایک ذریعہ عطا کیا ہو۔ حضرت نوحؑ، جنہیں تقویٰ، حلم، اور صبر سے آراستہ کیا گیا، اپنی قوم کے سامنے رب کا پیغام لے کر کھڑے ہوئے۔ لیکن قوم نے اُن کی بات کو رد کر دیا، اُن پر ہنسی اُڑائی، اور ہدایت کے نور کو جھٹلایا۔

نوحؑ کی قوم بت پرستی، بے حیائی، اور ظلم میں اس قدر آگے بڑھ چکی تھی کہ خالقِ کائنات نے فیصلہ فرمایا کہ اب اصلاح صرف ایک طوفانی تطہیر سے ممکن ہے۔ تب ربّ عظیم نے حضرت نوحؑ کو کشتی بنانے کا حکم دیا، جس کی تفصیل، سائز، اور حکمت خود آسمان سے نازل ہوئی۔ اس کشتی کا مقصد صرف جسمانی تحفظ نہ تھا، بلکہ یہ ایمان، وفاداری، اور اطاعت کی کشتی تھی—جو آنے والی آزمائش میں اہلِ حق کے لیے پناہ بنے گی۔

حضرت نوحؑ نے کشتی تیار کی، جانوروں کے جوڑے جمع کیے، اہلِ ایمان کو ساتھ لیا، اور خوراک مہیا کی—جیسے ایک چرواہا اپنی ریوڑ کو طوفان سے پہلے محفوظ چراگاہ میں لے جاتا ہے۔ وہ ربّ کے ہر حکم پر خاموشی سے عمل کرتے گئے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اطاعت ہی وہ کشتی ہے جو انسان کو نجات کے ساحل تک لے جاتی ہے۔ اب وقت قریب آ چکا تھا، آسمان جھکنے والا تھا، اور زمین بہنے والی تھی—لیکن اہلِ اطاعت تیار تھے۔


اختتام:

ان چھ اسباق کا نچوڑ یہ ہے کہ ربّ العزت اپنے بندوں کو اندھیروں میں تنہا نہیں چھوڑتا۔ وہ اپنے نبیوں کے ذریعے پہلے تنبیہ کرتا ہے، پھر نجات کی راہیں دکھاتا ہے۔ حضرت نوحؑ کی اطاعت، ان کا صبر، اور ان کی بصیرت ہمارے لیے ایک آئینہ ہے۔ کشتی صرف لکڑی کی ساخت نہ تھی، بلکہ وہ رب کی رضا کی علامت تھی۔ جس نے اس پر سوار ہونے کا فیصلہ کیا، وہ بچ گیا؛ اور جس نے انکار کیا، وہ غرقاب ہوا۔


دعا:

اے ربِّ قدوس!
ہمیں حضرت نوحؑ جیسے صبر، اطاعت، اور یقین عطا فرما۔
ہمیں فتنوں کے طوفانوں میں اپنی کشتیِ نجات میں سوار فرما،
ہمارے دلوں کو اپنی رضا سے بھر دے،
اور ہمیں اُن لوگوں میں شامل فرما
جو تیرے نور کو پہچان کر اُس کی پیروی کرتے ہیں۔
ہمیں اپنے انبیاء کی سنت پر چلنے والا بنادے،
اور ہماری نسلوں کو فتنہ و گناہ سے محفوظ رکھ۔

آمین، یا ربّ العالمین۔