کورس کا خلاصہ
جب زمین اپنے زخم سہلا رہی تھی اور طوفان کا شور ہدایت کی خاموشی میں ڈھل چکا تھا، تب ربِ قدیر نے حضرت نوحؑ کو وہ بشارت عطا فرمائی جسے “عہدِ نو” کہا جاتا ہے۔ آپؑ نے زمین پر پہلا قربان گاہ بنایا اور حلال جانوروں کی قربانی پیش کی، جس کی خوشبو عرشِ الٰہی تک پہنچی۔ یہ قربانی فقط ذبح نہیں تھی، بلکہ ایک روحانی زبان تھی جس نے بندے کی بندگی کو خالق کی بارگاہ تک پہنچا دیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب رب تعالیٰ نے یہ دائمی وعدہ کیا کہ آئندہ کبھی زمین کو طوفانی قہر سے تباہ نہ کرے گا، اور شب و روز، سرد و گرم، اور کٹائی و بُوائی کا سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔
پھر نسلِ نو کی ذمہ داریوں کا آغاز ہوا۔ خالقِ کائنات نے حضرت نوحؑ اور ان کی نسل کو فرمایا: “پھلو اور بڑھو، زمین کو آباد کرو۔” لیکن اس افزائش کے ساتھ انہیں انسانی حرمت کا درس بھی دیا گیا۔ خون، جو زندگی کی علامت ہے، اسے ربّ نے اپنی طرف منسوب کیا، اور فرمایا کہ کسی انسان کا خون بہانے والا خود اپنے انجام کا ذمہ دار ہو گا۔ کیونکہ انسان کو میں نے اپنی صورت پر پیدا کیا، اور اُسے خلافت کی امانت دی ہے۔
پھر ربّ نے قوسِ قزح کے رنگوں میں اپنی رحمت کا پیغام چُھپا دیا۔ فرمایا: “جب آسمان پر قوسِ قزح نظر آئے، تو جان لو کہ میں اپنے وعدے کو یاد رکھتا ہوں۔ یہ میری قوس ہے جو بادلوں میں لٹکی رہے گی، تاکہ دنیا جان لے کہ میں وعدہ فراموش نہیں کرتا—اَنَا خَیْرُ الذَّاکِرِیْنَ۔”
اسی سلسلے کی چوتھی کڑی میں، ادبِ نبوت اور وصالِ نوحؑ کا وہ عظیم سبق چھپا ہے جو نسلوں کی تقدیر کا سنگِ بنیاد بنا۔ حضرت نوحؑ، جو ایک نبی ہونے کے ساتھ ایک باپ بھی تھے، ایک دن نبیذ پی کر غفلت میں اپنے خیمے میں آرام فرما رہے تھے، اور آپؑ کا ستر بے پردہ ہو گیا۔ بیٹے حام نے اسے بے ادبی سے دیکھا اور دوسروں کو سنایا، جبکہ سام اور یافت نے نگاہیں جھکا کر ادب و حیاء کے ساتھ ستر پوشی کی۔
جب حضرت نوحؑ بیدار ہوئے، تو اپنی روحانی بصیرت سے پہچان لیا کہ کس نے ادب کا حق ادا کیا اور کون محرومی کے دروازے پر دستک دے چکا۔ یوں دعا اور بددعا نے نسلوں کی سمت متعین کی—حام کی نسل محکوم ٹھہری، اور سام و یافت کی نسل برکت و قیادت کی وارث بنی۔
اور پھر وہ وقت آیا جب حضرت نوحؑ، جنہوں نے 950 برس کی اطاعت، تبلیغ اور قربانی سے بھری زندگی گزاری، اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ان کا وصال ایک چراغ کا بجھنا نہ تھا، بلکہ ایک تاریخ کا اختتام اور ایک امت کی شروعات تھی۔
دعا:
اے ربِ قدیر!
تو ہی ہے جو قربانی کی خوشبو کو قبول فرماتا ہے،
ہمیں نوحؑ کی طرح وفا، سام کی طرح ادب، اور یافت کی طرح برکت عطا فرما۔
ہمارے قلوب میں قوسِ قزح جیسی امید،
اور ہمارے کردار میں اطاعت کی کشتی بنا دے۔
ہمیں طوفانِ غفلت سے بچا کر ہدایت کے ساحل تک پہنچا دے۔
آمین یا ربّ العالمین
سوالات کے جواب دیں