کورس کا خلاصہ

جب زمین پر شرک کی گرد چھا چکی تھی، اور دلوں میں حق کی آواز دب چکی تھی، تب رب العالمین نے ہدایت کے ایک چراغ کو ایک خاندان کے دل میں روشن کیا۔ حضرت تارح، جو ایک بزرگ و محترم باپ تھے، نے اپنے بیٹے حضرت ابرام، اپنی بہو سارئی، اور اپنے یتیم پوتے حضرت لوط کے ساتھ بت پرستی کی سرزمین اُور کو چھوڑنے کا ارادہ کیا، اور قافلۂ اخلاص کنعان کی جانب روانہ ہوا۔

یہ ہجرت فقط مقام کی تبدیلی نہ تھی، بلکہ یہ ایک دل کا سفر تھا — جہاں تعلقات، آسائشیں، اور دنیاوی جڑیں چھوڑ کر سچ کی طرف چلنا تھا۔ جب قافلہ حاران پہنچا تو حضرت تارح کی زندگی کا اختتام ہوا، مگر ابرام کے اندر ہدایت کا سفر جاری رہا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب وحیِ الٰہی پہلی بار حضرت ابرام کے دل پر نازل ہوئی۔ خدا نے فرمایا: “اپنی قوم، خاندان اور زمین چھوڑ دو، اور اس مقام پر جاؤ جہاں میں تجھے لے چلوں گا۔ میں تجھے برکت دوں گا، اور تیری نسل قوموں کی ماں و باپ بنے گی۔”

حضرت ابرام نے اطاعت میں قدم اٹھایا۔ ان کی ہجرت، ان کی قربان گاہیں، ان کی خاموش دعائیں اور ان کا صبر، سب ایک ایسی روشنی کا راستہ بن گئے جس سے آج بھی راہ پانے والے چراغ جلاتے ہیں۔ سِکم، بیت ایل، اور کنعان کے مقامات اُن کے ذکر سے معطر ہو گئے۔

پھر ایک رات وہ الہامی لمحہ آیا، جب خدا نے حضرت ابرام کو ستارے دکھا کر فرمایا: “اگر تو ان کو گن سکتا ہے تو گن لے، تیری نسل انہی کی مانند بے شمار ہوگی۔” حضرت ابرام نے نہ صرف سنا بلکہ دل سے مانا، اور رب کی رضا میں فنا ہو گیا۔

لیکن ابھی آزمائش باقی تھی۔ حضرت سارئی بانجھ تھیں، اور وقت گزرنے لگا۔ حضرت ہاجرہ کے بطن سے حضرت اسماعیل پیدا ہوئے، جو رب کی رحمت اور ایک عظیم نسل کے پیش خیمہ بنے۔ مگر خدا کا وعدہ ابھی ادھورا نہ تھا۔ جب حضرت ابرام کی عمر ننانوے برس کو پہنچی، تو رب نے پھر ندا دی — اس بار صرف وعدہ نہیں بلکہ عہد تھا۔ رب نے ان سے کہا: “ابرام نہیں، ابراہیم کہلاؤ — قوموں کے باپ۔ اور سارئی نہیں، سارہ کہلائے گی — قوموں کی ماں۔”

اسی عہد کو یاد رکھنے کے لیے ختنہ کا حکم دیا گیا، تاکہ ہر نسل میں یہ علامت باقی رہے کہ یہ قوم رب کے وعدے پر یقین رکھنے والوں کی نسل ہے۔ حضرت ابراہیم نے عاجزی سے کہا: “میرے رب! اگر اسماعیل تیرے حضور جیتا رہے، تو کافی ہے۔” رب نے فرمایا: “اسماعیل بابرکت ہوگا، لیکن عہدِ وارث اور نبوت اسحاق کے ساتھ ہوگا، جو سارہ کے بطن سے پیدا ہوگا۔”

اور پھر وعدہ پورا ہوا۔ ایک سال بعد حضرت اسحاق کی ولادت ہوئی، اور یوں نبوت کا وہ قافلہ جو نور سے شروع ہوا تھا، علم، قربانی، اور یقین کے چراغوں کے ساتھ بڑھتا گیا۔


روحانی نتائج

  1. ہجرتِ دل ہی اصل ہجرت ہے — جو صرف مقام سے نہیں، بلکہ خودی سے دستبرداری سے شروع ہوتی ہے۔
  2. وعدۂ رب تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے، لیکن فنا نہیں ہوتا — شرط صرف یہ ہے کہ دل میں یقین زندہ ہو۔
  3. وارث وہی بنتا ہے جو ختنۂ دل کر کے رب کے عہد میں شامل ہو جائے — یعنی اپنے نفس کو قربان کر کے وفاداری کی مہر ثبت کرے۔
  4. حضرت ابراہیم کی کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ عہدِ نبوت کا وارث وہی ہوتا ہے جس کا دل مکمل طور پر رب کے تابع ہو جائے۔

اختتامیہ

حضرت ابراہیم کی زندگی، ہجرت، صبر، یقین اور دعا کی وہ زندہ تفسیر ہے جو ہر صدی کے انسان کے لیے پیغام رکھتی ہے — کہ اگر بندہ رب پر بھروسہ کرے، اپنا سب کچھ اس کے سپرد کرے، تو وہی رب اُسے قوموں کا باپ بناتا ہے۔ اللہ کا عہد ہمیشہ زندہ رہتا ہے، اور وہی لوگ اس کے وارث بنتے ہیں جو ہر آزمائش میں بھی وفا پر قائم رہتے ہیں۔


دعائے عہد و یقین

اے رب العزت!
ہمیں حضرت ابراہیم کا یقین عطا فرما
جس نے تیری آواز پر اپنا وطن چھوڑ دیا
ہمیں سارہ کا صبر عطا فرما
جس نے بانجھ پن میں بھی دعا نہ چھوڑی
ہمیں ہاجرہ کی وفا دے
جس نے بیابان میں تیرے وعدے پر سکون پایا
اور ہمیں اسحاق کی وراثت عطا فرما
کہ ہم تیری راہ کے وارث ہوں
نہ فقط نسل کے، بلکہ عہد کے
آمین، یا رب العالمین۔