کوہِ شریعت، بچھڑا اور وصالِ کلیمؑ

جب بنی اسرائیل، ربِ جلیل کے فضل و قہر کی جلوہ نمائی کے بعد، فرعون کے ظلم سے نجات پا کر صحرا میں وارد ہوئے، تو وہ ایک طویل مدت تک وہاں قیام پذیر رہے۔ اُن کی بیرونی زنجیریں ٹوٹ چکی تھیں، مگر دلوں میں غلامی کے نقوش ابھی باقی تھے۔ اسی احوال میں، ربِ علیم نے اپنے برگزیدہ نبی حضرت موسیٰؑ کو کوہِ سینا پر اپنی شریعت عطا فرمانے کے لیے بلایا، تاکہ قوم کو ظاہری آزادی کے بعد باطنی طہارت عطا ہو۔

حضرت موسیٰؑ چالیس دن اور چالیس راتیں ربِ کریم کے حضور کوہِ سینا پر حاضر رہے۔ اسی مقدس خلوت میں ربِ رحیم نے اپنی قدرت سے لکھی ہوئی دو لوحیں حضرت موسیٰؑ کو عطا فرمائیں، جو بندگی، صداقت، پاکیزگی، عدل و احسان کی روشنی سے منور تھیں۔

مگر نیچے قوم آزمائش کی بھٹی میں ڈال دی گئی۔ جب انہوں نے حضرت موسیٰؑ کی تاخیر دیکھی تو حضرت ہارونؑ سے عرض کی: “ہمارے لیے ایک ایسا معبود تراش دے جو ہمارے ساتھ ہو، کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ موسیٰؑ کو کیا ہوا۔” چنانچہ اُنہوں نے اپنے کانوں سے سونے کی بالیاں اتاریں، حضرت ہارونؑ نے ان زیورات کو پگھلا کر ایک بچھڑے کی صورت ڈھالی۔ اور قوم بے صبری سے اس گونگے و بے جان بچھڑے کو اپنا معبود کہہ کر پکارنے لگی: “یہی ہے وہ رب جس نے ہمیں سرزمینِ مصر سے نکالا!”

جب حضرت موسیٰؑ، ربِ قدوس کی شریعت کے نور سے لبریز ہو کر پہاڑ سے واپس لوٹے اور قوم کی اس گمراہی کا مشاہدہ کیا، تو شدتِ غیظ سے رب کی لکھی ہوئی وہ لوحیں اُن کے ہاتھوں سے گر کر ٹوٹ گئیں۔ وہ بچھڑے کو آگ میں جھونک کر پیس ڈالا، اور اس کی راکھ پانی میں ملا کر قوم کو پلایا تاکہ وہ اپنی نافرمانی کا ذائقہ چکھیں۔

پھر حضرت موسیٰؑ نے حضرت ہارونؑ سے پرخاش کی: “تو نے اُنہیں اس گمراہی کی طرف کیوں چھوڑ دیا؟” حضرت ہارونؑ نے عذر پیش کیا: “اے میرے بھائی! میری داڑھی اور سر کو نہ تھامو، میں ڈرا کہ کہیں یہ قوم آپس میں پھوٹ نہ ڈال دے۔”

حضرت موسیٰؑ نے سجدہ کرتے ہوئے ربِ غفور سے التجا کی: “اے رب! اگر تو ان کا گناہ معاف نہیں فرماتا، تو میرا نام بھی اپنی کتابِ حیات سے مٹا دے!” ربِ ذوالجلال نے ارشاد فرمایا: “جو میرے خلاف گناہ کرے گا، اُسی کو میں اپنی کتاب سے مٹاؤں گا۔ اب تُو دو نئی تختیاں تیار کر، اور پہاڑ پر آ، میں وہی احکام دوبارہ لکھوں گا جو پہلے عطا کیے تھے۔”

حضرت موسیٰؑ نے دوسری بار چالیس دن اور چالیس راتیں روزہ رکھتے ہوئے پہاڑ پر قیام فرمایا۔ ربِ علیم نے اپنی رحمت و حکمت کے ساتھ اُنہیں دوبارہ لوحِ شریعت عطا فرمائی۔

جب بنی اسرائیل رب کی عنایات کے سایہ میں وعدہ شدہ سرزمین کے قریب پہنچے، ربِ قدیر نے حضرت موسیٰؑ کو ایک بلند پہاڑ پر بلایا، اور وہاں سے اُنہیں وہ سرزمین دکھائی جس کا وعدہ رب نے ان کے باپ دادا سے فرمایا تھا۔ مگر ارشاد ہوا: “تُو اسے دیکھے گا، مگر اس میں داخل نہ ہوگا۔”

اور وہی مقام حضرت موسیٰؑ کے وصال کا مقام بنا۔ وہاں، اسی پہاڑ پر، ربِ کریم کے حضور اُن کی روح بارگاہِ قدس کی طرف لوٹ گئی۔ ربِ جلیل نے اپنی رحمت سے اُنہیں زمین کے حوالے فرمایا، اور آج تک کوئی بھی اُن کی قبر کا مقام نہیں جانتا کیونکہ اُن کا نشان خاک میں نہیں، بلکہ نور میں محفوظ رکھا گیا۔

اور نہ کوئی نبی ایسا ہوا جس نے حضرت موسیٰؑ کی مانند ربِ علیم سے چہرہ بہ چہرہ کلام کیا ہو، اور جس کے ہاتھ پر ربِ ذوالجلال نے نشانیاں ظاہر فرمائیں۔


حضرت عبدالقادر بیدلؒ

دلِ عاشق بہ آتش شد جلیدن
سکندر شد، اگر دریا بریدن

تشریح:
عاشق کا دل جب سوزِ یقین سے جلتا ہے، تو وہ دریا چیرنے والا سکندر بن جاتا ہے یہ سوز ہی وہ چراغ ہے جو حضرت موسیٰؑ کے عصا کو شریعت کی لوح اور قوم کی رہنمائی بنا دیتا ہے۔


نتائج:

  1. ربِ کریم کی شریعت وہ چراغ ہے جو قوموں کو جہالت سے حکمت کی طرف رہنمائی دیتا ہے۔
  2. بے صبری اور شرک انسان کو آزادی کے بعد بھی قید میں ڈال دیتا ہے۔
  3. حضرت موسیٰؑ کی شفاعت، ان کی قیادت اور حلم، ربِ رحمن کی رحمت کو پکارنے کا وسیلہ بنے۔
  4. ربِ علیم، عدل کے ساتھ معافی عطا کرنے والا بھی ہے، مگر حدود کو پامال کرنے والوں سے حساب بھی لیتا ہے۔
  5. وصالِ کلیمؑ ہمیں سکھاتا ہے کہ نبی رب کے پیغامبر ہوتے ہیں، ان کا نشان مٹی میں نہیں بلکہ دلوں میں محفوظ رہتا ہے۔

اختتامیہ:

یہ سبق ان قوموں کے لیے نشانِ عبرت ہے جو نبیوں کو پا کر بھی صبر نہ کریں۔ لوحِ شریعت، توبہ، بچھڑے کی راکھ، پہاڑ پر وصال سب کچھ ایک ایسی روحانی داستان ہے جس کا ہر لمحہ قرب، فہم، اور بندگی کی روشنی سے لبریز ہے۔ حضرت موسیٰؑ ربِ علیم کے برگزیدہ کلیم تھے، جن کی قیادت صرف زمین پر نہ تھی بلکہ آسمانی کلام کی روشنی سے وابستہ تھی۔