کھویا ہوا بیٹا

حضرت سیدنا عیسٰیؑ نے کھوئے ہوئے بیٹے   کے حوالے سے ایک مثال پیش کرتے ہوئے فرمایا: ”ایک شخص تھا۔ اُس کے تھے دو بیٹے۔ ایک دن چھوٹا بیٹا اپنے باپ سے کہنے لگا: ’ابّا جان! وراثت میں سے میرا حصہ مجھے اپنے جیتے جی دے جائیے!‘ سو باپ نے خلافِ دستور جائداد تقسیم کر کے ہر ایک کو اُس کا شرعی حصہ دے دیا۔ ”کچھ دن ہی بعد چھوٹے بیٹے نے اپنا حصہ فروخت کر دیا اور رقم لے کر کسی دور دراز ملک کا رخ کیا۔ وہاں  گھر بار سے دُور اُس نے اپنی ساری دولت عیاشی میں اڑا دی۔ اِدھر سب کچھ خرچ ہو گیا، اُدھر اُس ملک میں سخت قحط پڑا۔ جب بھوکوں مرنے لگا، تو مزدوری کرنے کے لئے اُس ملک کے ایک کافر زمیندار سے چپک گیا۔ اِس شخص نے اُسے اپنے کھیتوں میں سؤر چَرانے پر لگا دیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اُس کا دل چاہتا کہ ’مَیں خرنُوب پھلیوں ہی سے جو سؤر کھا رہے ہیں اپنی بھوک مٹا لوں‘، مگر کوئی بھی اُسے کچھ نہیں دیتا تھا۔ ”جب ہوش ٹھکانے آئے، تو سوچنے لگا: ’ابّا جان کے مزدوروں کو تو ضرورت سے بھی زیادہ روٹی ملتی ہے، مگر مَیں ہوں کہ یہاں بھوکوں مر رہا ہوں۔ کیوں نہ فورًا لوٹ کر والد کے پاس جاؤں اور اُن سے کہوں: ”ابّا جان! مَیں اللہ کا گناہ‌گار اور آپ کا مجرم ہوں۔ اب مَیں آپ کا بیٹا کہلانے کے لائق نہیں رہا۔ اِس لئے مجھے روزانہ مزدوری پر لگا لیجئے!“‘ پس وہ اٹھ کر اپنے والد کی طرف روانہ ہو گیا۔

”ابھی گھر سے دور ہی تھا کہ اُس کے باپ نے اُسے دیکھ لیا۔ اُسے اپنے بیٹے پر بہت ترس آیا۔ اُس نے دوڑ کر اُسے گلے لگا لیا اور بہت بہت پیار کیا۔ بیٹے نے کہا: ’ابّا جان! مَیں اللہ کا گناہ‌گار اور آپ کا مجرم ہوں۔ اب مَیں اِس لائق کہاں کہ آپ کا بیٹا کہلا سکوں؟ مجھے تو مزدور رکھ لیجئے!‘ ”اُس کے باپ نے اُس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے اپنے نوکروں سے کہا: ’جلدی سے بہترین چوغہ لا کر اِسے پہناؤ! میرے بیٹے کے ہاتھ میں اختیار والی انگوٹھی اور پاؤں میں جوتے پہناؤ! ایک پلا ہؤا بچھڑا ذبح کرو کہ کھا کر جشن منائیں کیوں کہ میرے اِس بیٹے کو جو گویا مر گیا تھا دوبارہ زندگی ملی ہے۔ بِچھڑ گیا تھا، اب واپس مل گیا ہے۔‘ اِس کے بعد وہ سب جشن منانے لگے۔ ”اُس کا بڑا بیٹا ابھی تک کھیت میں تھا۔ لیکن جب وہ آ کر گھر کے قریب پہنچا، تو اُس نے رقص و سرود کی آواز سنی۔ ایک نوکر کو بلا کر اُس سے پوچھنے لگا کہ ’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘ نوکر نے کہا ’آپ کا بھائی واپس آ گیا ہے۔ بڑے مالک نے ایک پلا ہؤا بچھڑا ذبح کرایا ہے — کیوں کہ وہ بخیر و عافیت واپس آ گیا ہے۔‘ یہ بات سن کر بڑا بیٹا ناراض ہؤا اور اندر جانے سے انکار کر دیا۔ اُس کا باپ باہر آ کر اُسے منانے لگا، مگر وہ اپنے باپ سے کہنے لگا: ’ذرا دیکھئے تو سہی! مَیں اِتنے برس سے نوکروں کی طرح آپ کی خدمت کر رہا ہوں۔ آپ کا کوئی حکم کبھی رد نہیں کیا، مگر آپ سے یہ تک نہ ہو سکا کہ کبھی بکری کا ایک بچہ ہی مجھے دے دیتے کہ مَیں اپنے دوستوں کے ساتھ خوشی منا لیتا۔ اور آپ کا یہ ”بیٹا“ آپ کا سب کچھ دو ٹکے کی طوائفوں کے ساتھ عیاشی میں برباد کر کے آیا ہے، تو آپ نے اِس کے لئے پلا ہؤا بچھڑا تک ذبح کروا ڈالا!‘ ”باپ نے اُس سے کہا: ’میرے بچّے! تم تو ہمیشہ میرے پاس ہو اور جو کچھ میرا ہے، وہ سب تمھارا ہی ہے۔ ہمیں یہ جشن منانا لازم ہے کیوں کہ تمھارے اِس بھائی کو جو گویا مر گیا تھا دوبارہ زندگی ملی ہے۔ بِچھڑ گیا تھا، اب مل گیا ہے۔