گناہ، رجوع، حضرت داؤدؑ ، توبہ

جب دل خاموشی میں کسی ایسی راہ پر قدم رکھے جس پر روشنی نہیں بلکہ سایہ ہو تو انسان اپنی ہی خواہش کے بوجھ تلے دبنے لگتا ہے۔ گناہ ہمیشہ شور سے نہیں آتا، وہ اکثر چپ کے ساتھ آتا ہے، ایک نظر، ایک خیال، ایک ارادہ جو رفتہ رفتہ دل کو اس نقطے تک لے جاتا ہے جہاں ضمیر تھم جاتا ہے اور روح کانپنے لگتی ہے۔ اصل ابتلا یہی ہے کہ جب اختیار موجود ہو، جب کوئی روکنے والا نہ ہو، اور جب دل کا جھکاؤ خاموشی سے نافرمانی کی طرف ہو جائے۔ لیکن یہی وہ لمحہ بھی ہے جہاں رجوع کا دروازہ کھلتا ہے کیونکہ رب تعالیٰ کی رحمت وہاں دستک دیتی ہے جہاں انسان اپنی خطا کے بوجھ سے لرزتا ہے۔ گناہ صرف ایک فعل نہیں، بلکہ ایک اندرونی زوال ہے اور رجوع فقط معافی کی التجا نہیں بلکہ ایک روحانی انقلاب ہے۔ توبہ اُس وقت قبول ہوتی ہے جب انسان نہ صرف اپنی خطا مان لے بلکہ اُس پر ٹوٹ جائے، اُس پر روئے، اور اُسے وہ زخم سمجھے جو اپنے خالق کے دل کو لگا۔ گناہ سے واپسی ممکن ہے اگر دل نرم ہو، آنکھ اشکبار ہو، اور روح صداقت سے لبریز ہو۔ یہی وہ مقام ہے جہاں گناہ ختم ہوتا ہے اور فضل کا آغاز ہوتا ہے۔

دل کی نگاہ اور آزمائش کی پہلی لغزش

وہ دن زمین پر سکون کا تھا۔ آسمان سے رحمت نازل ہو رہی تھی۔ سلطنت میں عدل، امن اور حکمت کا چراغ روشن تھا۔ دشمن زیر ہو چکے تھے اور رعایا خوشحال تھی۔ حضرت داؤدؑ فتوحات کے بعد کے لمحوں میں دل کی خاموشی کے ایک نرم گوشے میں آرام فرما تھے۔ مگر یہی وہ لمحہ تھا جہاں آزمائش نے خاموشی کے پردے میں قدم رکھا۔

دل جب فراغت میں ہو، اور روح مراقبہ سے خالی ہو، تو شیطان وسوسے کا چراغ جلا دیتا ہے۔ حضرت داؤدؑ جو کہ اللہ کے نبی اور بنی اسرائیل کے بادشاہ تھے، ایک دن محل کی چھت پر تنہا چہل قدمی کر رہے تھے۔ نگاہ آزاد تھی، اور اسی آزادی میں ایک لمحاتی منظر ظاہر ہوا۔ ایک عورت غسل کر رہی تھی۔ وہ منظر ایک لمحہ کے لئے آیا، مگر اسی لمحے میں نفس نے دل کی دیوار پر دستک دے دی۔ وہ نگاہ آزمائش کی پہلی آہٹ تھی جو دل میں خواہش کا بیج بویا گئی۔

حضرت داؤدؑ نے دریافت کیا کہ یہ عورت کون ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ ایک سپاہی کی زوجہ ہے۔ یہاں پر نفس اور روح میں معرکہ شروع ہو چکا تھا۔ خوفِ خدا خاموش تھا، اور خواہش کی آندھی بلند۔ اختیار کی قوت نے روحانی کمزوری کو بے نقاب کر دیا۔ حضرت داؤدؑ نے اُسے بلوایا، اور وہ گناہ واقع ہوا جو نبی کے مقامِ زہد و تقویٰ کے منافی تھا۔

اس لمحے ایک اور آزمائش نے جنم لیا۔ گناہ کو چھپانے کی خواہش نے ایک نئی چال چلی۔ اُس عورت کے شوہر کو میدانِ جنگ پر بھیج دیا گیا۔ وہاں وہ شہید ہو گیا، اور حضرت داؤدؑ نے اس عورت کو اپنے نکاح میں لے لیا۔ پردہ قائم رہا، مگر آسمان خاموش نہ رہا۔

ربِ جلیل کی عدالت گواہ تھی۔ اُس نے نہ صرف فعل کو دیکھا، بلکہ نیت کی تہہ تک نظر کی۔ یہاں ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ گناہ ہمیشہ کسی بڑے فریب سے شروع نہیں ہوتا۔ بعض اوقات ایک نظر، ایک خیال، ایک خواہش انسان کو اس دلدل میں لے جاتی ہے جہاں عقل کا چراغ بجھ جاتا ہے، اور نفس کا دھواں پھیل جاتا ہے۔


نصیحت کی تنبیہ اور الٰہی عدالت کی صدا

جب زمین کی عدالتیں مصلحت کا لباس اوڑھ لیں اور جب طاقتور لوگ اختیار کی دیوار کے پیچھے حق کو دفن کرنے لگیں، تب خاموش آسمان ایک نبی کو بیدار کرتا ہے جو انسانی زبان میں رب کا انصاف لے کر آتا ہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب حضرت داؤدؑ گناہ کی گرد میں لپٹا ہوا تھا، سلطنت کی چمک میں ضمیر کی صدا کو سننا بھول چکا تھا۔

اسی لمحے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے حضرت ناتن پر وحی نازل فرمائی اور کہا” “تو داؤدؑ کے پاس جا اور اُسے بتا کہ تُو نے گناہ کیا ہے کیونکہ میں رحیم ہونے کے ساتھ عادل بھی ہوں۔

ربِ کریم کے فرمان کے بعد حضرت ناتن محل میں حضرت داؤدؑ کے پاس آئے، مگر حضرت ناتن کے لبوں پر ملامت کی تلخی نہ تھی۔ وہ الزام کی چنگاری نہیں لائے تھے، بلکہ حکمت کی روشنی لے کر آئے تھے۔ حضرت ناتن نے بادشاہ داؤدؑ کو ایک داستان سنائی، ایک سادہ سی داستان، مگر اُس کے پردے میں عدل کی وہ روشنی چھپی تھی جو صرف ان دلوں کو نظر آتی ہے جو ابھی مکمل اندھوں میں شامل نہیں ہوتے۔ ناتن نبی نے حضرت داؤدؑ سے فرمایا ایک شخص تھا جس کے پاس ایک پیاری سی بکری تھی، جسے وہ اپنی اولاد کی طرح چاہتا تھا مگر دوسرے شخص نے جس کے پاس بے شمار مویشی تھے، مگر اُس نے اس غریب کی بکری چھین لی۔

جب یہ داستان داؤدؑ کے کانوں تک پہنچی اور اُس کا دل جو عدل سے آشنا تھا، فوراً بھڑک اٹھا۔ اُس نے ناتن نبی سے کہا کہ ایسا شخص سزا کا مستحق ہے، اُسے چار گنا بدلہ دینا ہو گا۔ اور پھر ناتن نے وہ جملہ کہا جو وقت کے پردے چاک کر دیتا ہے، جو آسمان کی عدالت کو زمین پر ظاہر کر دیتا ہے۔ اُس نے کہا، “وہ شخص آپ ہیں۔

حضرت ناتن کے یہ الفاظ کسی شمشیر کی طرح حضرت داؤدؑ کے دل میں پیوست ہو گئے۔
اُسی وقت رب تعالیٰ کی وحی حضرت ناتن پر نازل ہوئی اور ربِ کریم نہ فرمایا تُو داؤدؑ سے کہہ، “میں نے تجھے چنا، تجھے سلطنت دی، دشمنوں سے بچایا، عزت بخشی، نعمتیں عطا کیں۔ اگر تُو مزید مانگتا، میں اور دیتا۔ مگر تُو نے وہ راہ کیوں چنی جو میری رضا کے خلاف ہے۔ تُو نے ایک امانت کو پامال کیا، اور اپنے نفس کو تخت کی آڑ میں چھپا لیا۔”

ربِ جلیل کا یہ کلام صرف نصیحت نہ تھا بلکہ دل کی عدالت تھی۔ وہ لمحہ جب ایک نبی اپنے رب تعالیٰ کی عدالت میں جھک جاتا ہے، جب ایک بادشاہ اپنی بادشاہت کو خاک سمجھ کر، ربِ جلیل کی حضوری کو اصل عزت مانتا ہے۔ حضرت ناتن کی ملامت میں رب تعالیٰ کی رحمت پوشیدہ تھی۔ یہ وہ لمحہ تھا جہاں حضرت داؤدؑ کے دل پر گناہ کی گرد چھٹنے لگی، اور اندر سے توبہ کا چشمہ پھوٹنے لگا۔


آزمائش کی سزا، صبر کی روشنی، اور حضوری کی واپسی

جب ایک نبی لغزش کا شکار ہو، تو وہ لغزش صرف اس کی ذاتی زندگی میں زلزلہ نہیں لاتی، بلکہ وہ پوری قوم کے روحانی توازن کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔ کیونکہ نبی محض ایک فرد نہیں ہوتا، وہ امت کی نبض ہوتا ہے، وہ رب کی امانت ہوتا ہے، وہ آئینہ ہوتا ہے جس میں خدا اپنے بندوں کو اپنا عکس دکھاتا ہے۔ حضرت داؤدؑ کی لغزش نے آسمان کو خاموش نہیں رہنے دیا، اور زمین پر بھی وہ اثرات ظاہر ہونے لگے جو آزمائش کی صورت میں آئے۔

حضرت ناتن نبی جب ربِ کریم کے کلام کے ساتھ حضرت داؤدؑ کے سامنے پیش ہوئے، تو وہ الفاظ بجلی کی طرح حضرت داؤدؑ کے قلب پر گرے۔ مگر ان کے اندر وہ دل موجود تھا جو نرم تھا، جو ٹوٹنے کی صلاحیت رکھتا تھا، جو پگھل سکتا تھا۔ حضرت داؤدؑ نے جھک کر توبہ کی، سچے دل سے اپنی خطا کو مانا، اور وہ رحمت کو پکارنے لگے جو ہر گناہ سے بڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ کو قبول فرمایا، مگر یہ قبولیت صرف الفاظ کا نعم البدل نہ تھی، بلکہ تربیت کا ایک نیا دروازہ کھل گیا۔

گناہ ایک بیج ہے جو اگرچہ توبہ سے معاف ہو جاتا ہے، لیکن وہ انسان کی روح میں ایک ایسی زرخیز زمین چھوڑ جاتا ہے جس میں آزمائش کے موسم آ کر نرمی، عاجزی اور قرب کی فصل اگاتے ہیں۔ حضرت داؤدؑ کی زندگی میں یہ فصل دکھوں، بغاوتوں، اولاد کی آزمائش، اور اندرونی کرب کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ مگر انہوں نے ان سب کو شکوہ نہیں بنایا، وہ اِن صدمات کو ربِ کریم کی محبت کی مار جان کر صبر کے آئینے میں سمیٹتے گئے۔

یہی وہ روحانی نکتہ ہے جو ہر تائب کو سمجھنا ہے کہ معافی کا مطلب یہ نہیں کہ درد ختم ہو جائیں، بلکہ یہ ہے کہ وہ درد رب تعالیٰ کے قرب کا وسیلہ بن جائیں۔ آزمائشیں جب آتی ہیں تو وہ ظاہری سزا نہیں ہوتیں، بلکہ باطنی تربیت کی چمکتی ہوئی تلواریں ہوتی ہیں جو دل کی نجاست کو کاٹ کر روح کو جِلا دیتی ہیں۔


ربِ کریم سے تعلق کی تجدید اور نئی روحانی زندگی

جب ندامت کی آنکھ اشکوں سے دھل جائے، جب دل کی زمین آہوں سے نرم ہو جائے، اور جب خطا کی تاریکی سے نکل کر بندہ رب تعالیٰ کے نور کی طرف جھکنے لگے، تو یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب حضوری لوٹتی ہے۔ یہ حضوری محض ظاہری قربت نہیں، بلکہ وہ باطنی روشنی ہے جو صرف ان دلوں پر اترتی ہے جو گناہ کے طوفان سے گزر کر شکستگی کے ساحل پر آن لگے ہوں۔

حضرت داؤدؑ کی توبہ فقط معافی کی التجا نہ تھی، بلکہ ایک ایسا روحانی سفر تھا جو دل کے ویرانے سے ہوتے ہوئے حضوری کے گلزار تک پہنچا۔ حضرت داؤدؑ نے ربِ کریم کی بارگاہ میں دعا کی فریاد کی، وہ ایک نبی کی فغاں تھی، مگر ساتھ ہی ہر داؤدؑ دل کی آواز بھی تھی جو ٹوٹ کر محبوبِ حقیقی کے در پر واپس آتا ہے۔
“داؤدؑ نے بارگاہِ الہیٰ میں رب ذوالجلال سے کہا، میرے گناہوں کو دھو ڈال، اور مجھے اپنے حضور میں خوشی و نجات کی روح دے”
حضرت داؤدؑ کی دعا اُس روح کا نوحہ تھی جو اپنی کھوئی ہوئی حضوری کو دوبارہ پانے کے لئے تڑپ رہی تھی، اور اُس قلب کی آہ تھی جو اپنے گناہوں کا بوجھ اتار کر پاکیزگی کی خلعت پہننا چاہتا تھا۔

ربِ کریم، جو دلوں کے حال جانتا ہے، اُس نے حضرت داؤدؑ کو رد نہ کیا، بلکہ ان کے اشکوں کو قبولیت کا وسیلہ بنا دیا۔ کیونکہ ربِ کریم کی بارگاہ میں سب سے محبوب وہ دل ہے جو ٹوٹ کر آ جائے، جو اپنی ناتوانی کا اعتراف کرے، اور جو حضوری کی بھیک مانگے۔ “کیونکہ شکستہ دل رب تعالیٰ کو پسند ہے، اور وہ اُسے رد نہیں کرتا”
یہی وہ نکتہ ہے جہاں توبہ محض معافی نہیں، بلکہ ایک روحانی تجدید بن جاتی ہے۔ جہاں گناہ کی تاریکی روشنی میں بدلتی ہے، اور ندامت، عرفانِ قرب کا دروازہ کھولتی ہے۔

یہی وہ مقام ہے جہاں گناہ ایک نئی روحانی زندگی کا دروازہ بن جاتا ہے، اور دل اُس سلطنت میں داخل ہوتا ہے جسے سلطنتِ الٰہیہ کہتے ہیں، جہاں محبت، رحمت، اور حضوری بکھری ہوتی ہے۔ حضرت داؤدؑ کی زندگی گواہی دیتی ہے کہ ربِ جلیل کا در فقط عدل کا در نہیں، بلکہ وہ محبت کا بھی ہے۔ ایسا در جو معاف کرتا ہے، نیا بناتا ہے، اور پھر سے اپنے نور میں سمیٹ لیتا ہے۔


مولانا جلال الدین رومیؒ

“بازآ بازآ ہرچہ ہستی بازآ
گر کافر و گبر و بت پرستی بازآ”

ترجمہ:
واپس آ جا، واپس آ جا، تُو جیسا بھی ہے واپس آ جا؛
چاہے تُو کافر ہے، مجوسی ہے، یا بُت پرست پھر بھی واپس آ جا۔

تشریح:
یہ وہ دعوتِ رحمت ہے جو ہر تائب، ہر گناہ گار، اور ہر بھٹکے ہوئے دل کو دی جاتی ہے۔ مولانا رومیؒ کا یہ شعر ایک الٰہی صدا ہے جو ہر اس روح کو پکار رہی ہے جس نے راستہ کھو دیا ہو، جو اپنی خطاؤں کے بوجھ تلے دب چکی ہو، اور جو یہ سمجھ بیٹھی ہو کہ اب اس کے لیے درِ محبوب بند ہو چکا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ درِ رب کبھی بند نہیں ہوتا۔ اگر حضرت داؤدؑ جیسے جلیل القدر نبی کے لیے یہ در کھلا رہا، تو ہر ٹوٹے دل کے لیے یہ دروازہ آج بھی کھلا ہے۔


نتائج

  1. توبہ ایک نیا دروازہ ہے جو صرف ماضی کو نہیں مٹاتا بلکہ مستقبل کو روشن کرتا ہے۔
  2. رب تعالیٰ کا در ہمیشہ کھلا رہتا ہے، لیکن وہاں داخل ہونے والے دل کو سچائی، عاجزی، اور اشکوں کا تحفہ لانا پڑتا ہے۔
  3. حضرت داؤدؑ کی توبہ ہمیں سکھاتی ہے کہ ربِ کریم کی حضوری صرف صالحین کے لیے نہیں، بلکہ ٹوٹے ہوئے دلوں کے لیے بھی ہے۔
  4. فارسی شاعری ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ رب تعالیٰ کی رحمت ہر حد سے بلند ہے اور وہ ہر لوٹنے والے کو قبول کرتا ہے، بشرطیکہ وہ سچے دل سے لوٹے۔

اختتامیہ

حضرت داؤدؑ کی زندگی کا یہ باب، ہمارے لئے صرف تاریخ نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنی شکستگی، اپنی خطا، اور اپنی امید دیکھ سکتے ہیں۔
توبہ کوئی ماضی کا بوجھ اتارنے کی رسم نہیں، بلکہ رب تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو نئی روحانی خوشبو سے معطر کرنے کا عمل ہے۔
اور جب یہ تعلق بحال ہو جاتا ہے، تو بندہ صرف مومن نہیں رہتا، وہ رب تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے وہ دل جسے رب تعالیٰ نہ رد کرتا ہے، نہ فراموش کرتا ہے۔