ہجرت اور صراطِ ابراہیمیؑ کا آغاز

جب زمین شرک کے بادلوں سے گھری ہوئی تھی، اور دلوں میں بتوں کے سائے پڑے تھے،
تب ربِ کریم نے ایک خاندان کو اُٹھایا — ایک بابرکت قافلہ، جس کے ذریعے ہدایت کے چراغ روشن ہونے تھے۔

حضرت تارح علیہ الرحمہ — ایک باوقار بزرگ، جنہیں ربّ العزت نے تین بیٹوں کی نعمت عطا فرمائی:
سیدنا ابرام علیہ السلام — وہ نورِ ازل کا پرتو، جن کی پیشانی میں انبیاء کی روشنی تھی۔
سیدنا نحور — وہ جو قبیلے میں قرار پذیر ہوئے، اور جن کی نسل بھی تاریخ کا حصہ بنی۔
سیدنا حاران — وہ جوان، جو اپنے والد کی زندگی میں ہی شہرِ کسدیوں کے اُور میں پردہ فرما گئے۔

سیدنا حاران کی جدائی، ایک روحانی آزمائش تھی۔ پیچھے رہ گئے اُن کے لختِ جگر سیدنا لوط علیہ السلام — وہ جنہیں بعد میں نبوت کا مقام عطا ہوا،
اور دو بیٹیاں: بی بی ملکاہ اور بی بی یسکاہ — جن کے دامن میں ماں کی یاد اور والد کی خلا تھی۔

سیدنا نحور نے بی بی ملکاہ سے نکاح کیا، اور
سیدنا ابرام علیہ السلام نے بی بی سارئی سلام اللہ علیہا کو اپنا ہمسفر چُنا —
وہ بی بی جن کے دامن میں اولاد نہ تھی، مگر اُن کا دِل صبر، وفا اور دعا سے بھرا ہوا تھا۔

پھر وہ ساعت آئی جب حضرت تارح علیہ الرحمہ نے بت پرستی کی سرزمین — شہر اُور — کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے اپنے فرزند حضرت ابرام علیہ السلام، اپنی نور نظر بہو بی بی سارئی سلام اللہ علیہا، اور اپنے پوتے حضرت لوط علیہ السلام کو ہمراہ لیا،
اور نکلے اس راہ پر جو کنعان کے مقدس میدانوں کی طرف جاتی تھی۔

مگر جب یہ قافلہ حاران کے مقام پر پہنچا، تو وہاں ڈیرے ڈال دیے۔
اور یہی مقام حضرت تارح علیہ الرحمہ کے دنیوی سفر کا آخری پڑاؤ ٹھہرا —
جہاں وہ 205 برس کی عمر پا کر اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے۔



بیا تا برویم سوی منزلِ دوست،
کہ ترکِ وطن باشد آغازِ جُست.

تشریح:
آؤ اُس سفر پر چلیں جو محبوبِ حقیقی کی قربت کی طرف لے جائے،
کیونکہ ہجرت — وطن کا ترک — حقیقت کی تلاش کا پہلا زینہ ہے۔

یہ شعر حضرت تارح علیہ الرحمہ کے قلبی سفر کو بیان کرتا ہے، جو ظاہر میں تو زمین کی تبدیلی تھی، مگر باطن میں ایک الہامی دعوت کی جھلک تھی۔


روحانی پیغام

یہ قصہ فقط نسب اور مقام کا نہیں، بلکہ مقصدِ حیات اور تقویٰ کا آئینہ ہے۔
حضرت ابرام علیہ السلام، جو بعد میں ابراہیم علیہ السلام کہلائے، وہ ہستی ہیں جنہوں نے نور کی راہ پر پہلا قدم باپ کے ہمراہ رکھا۔
بی بی سارئی سلام اللہ علیہا — جو بعد میں حضرت سارہ کے لقب سے پکاری گئیں — اُن کا صبر، عاجزی، اور خاموشی میں دعا کا رنگ،
ہمارے لیے روحانی سبق ہے۔

حضرت لوط علیہ السلام — جو اس قافلے کے نوجوان سالک تھے — اپنی معصوم نگاہوں سے باطل کے پردے چاک ہوتے دیکھ رہے تھے۔
اور حضرت تارح علیہ الرحمہ — ایک پدرِ بزرگوار — جن کی ہجرت نے مستقبل کی نبوت کا راستہ ہموار کیا۔


نتائج

  1. ہجرت، محض زمین کا ترک نہیں بلکہ دل کا تقرب ہے۔
    حضرت تارح کی ہجرت دراصل ایک باطنی بیداری کی علامت ہے۔
  2. صبر و بندگی عورت کی اصل زینت ہے۔
    بی بی سارئی کی بانجھ پن کی آزمائش میں صبر کا وہ معیار نظر آتا ہے جو اُنہیں ماں بنائے بغیر بھی روحانی مقام عطا کرتا ہے۔
  3. نسبتِ خاندان، نسب سے نہیں، نور سے بنتی ہے۔
    حضرت ابرام، حضرت لوط، بی بی سارئی — یہ سب ایک ایسا قافلہ بناتے ہیں جو بعد میں ہدایت کا علم بلند کرتا ہے۔

اختتام

یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں پہلا قدم ہمیشہ قربانی، جدائی اور یقین سے بھرا ہوتا ہے۔
حضرت تارح علیہ الرحمہ کا فیصلہ صرف ایک بزرگ کی حکمت نہیں تھا، بلکہ رب کی رضا کا پہلا عکس تھا۔
اور اس قافلے میں چمکتا ہوا وہ ستارہ — حضرت ابرام علیہ السلام — جس کے ذریعے ہدایت کی کہکشاں جگمگانے لگی۔